قومی اسمبلی توڑنے کا فیصلہ ملکی معیشت کو لے ڈوبا
عمران خان کی جانب سے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قومی اسمبلی توڑنے سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران نے ملکی معیشت کا خانہ خراب کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ڈالر کی قیمت 189 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ سیاسی بحران کے معیشت پر منفی اثرات نے پاکستانی روپے کی قیمت پر شدید دباؤ ڈالا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی تیزی سے کم ہو رہے ہیں جس کے باعث ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ملک ایک بڑے معاشی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔
قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے اور صدر کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے اور انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 189 روپے تک پہنچ گئی ہے جبکہ بلیک میں ڈالر 194 روپے تک فروخت ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ اتوار کو جب تحریک عدم اعتماد مسترد ہوئی اور سپریم کورٹ نے سو موٹو لیا تو ڈالر کی قیمت انٹر بینک 184.9 روپے تھی جو اب 189 تک پہنچ گئی ہے۔
عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی توڑ کے جانے کے بعد وفاقی حکومت اور وفاقی کابینہ ختم ہو چکی ہے، چنانچہ عملی طور پر ملک میں پچھلے پانچ روز سے کوئی وفاقی حکومت نہیں ہے۔ فوریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے ڈالر کی قیمت میں دس روپے اضافہ ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ڈالر کی قیمت پچاس پیسے روز کے حساب سے بڑھتی تھی مگر چند دنوں سے اس میں دو سے تین روپے تک روزانہ کا اضافہ ہو نا شروع ہو گیا ہے۔
ملک بوستان نے کہا کہ اس وقت ملک میں کوئی حکومت ہے ہی نہیں اور جو بچی کچی ہے وہ غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے معیشت کو مزید نقصان پہنچا رہی ہے۔
معاشی تجزیہ کار خرم حسین نے خبردار کیا ہے کہ ملکی معیشت بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور فی الحال دو ماہ کی درآمدات کے برابر ذخائر رہ گئے ہیں۔ اگر ان میں مزید کمی آتی ہے تو پھر بحران کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کو فوری طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام کو بحال کرنا ہو گا اور وہ اسی صورت میں ہی بحال ہو گا جب پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں کے بڑھانے پر عائد پابندی ختم ہو۔ خرم حسین نے کہا کہ اگر پیٹرول کی قیمت کی حد ختم کر دی گئی تو اس کی قیمت 200 روپے لیٹر سے تجاوز کر جائے گی جس سے مہنگائی کی ایک لہر آئے گی۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت سری لنکا کی طرز پر بدحالی کا شکار ہے، ڈالر کا بہاؤ برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو فوری طور پر 5 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 11 ارب ڈالرز کے قریب پہنچنے کا امکان ہے جس سے ڈالر کی قیمت پر مزید دباؤ بڑھے گا۔
یاد رہے کہ اگست2021 میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس 20.073 ارب ڈالر کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر تھے جو 25 مارچ 2022 تک کم ہو کر 12.04 ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ یعنی صرف 9 ماہ میں اس میں 8 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی تھی۔ آئی ایم ایف پروگرام کی غیر موجودگی میں پاکستان کو ڈالر کا بہاؤ برقرار رکھنے کے لیے کم از کم 5 ارب ڈالر کی فوری ضرورت ہے تاکہ 30 جون 2022 کو ادائیگیوں کے بحران سے بچا جاسکے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا جس سے پاکستان کے لیے معاشی بحران سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔