ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار، اسمبلیاں، حکومت بحال
سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی وزیر اعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کومسترد کرنے کی رولنگ پر ازخود نوٹس کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیدیا اور قومی اسمبلی اور وزیر اعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو بحال کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ سپیکر ہفتے کوصبح ساڑھے 10 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کریں اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے، سپیکر تحریک عدم اعتماد نمٹانے تک اجلاس ملتوی نہیں کرسکتے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے 8صفحات پر مشمتمل فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ تمام ججز کا متفقہ فیصلہ ہے، ہم نے ایک دوسرے سے مشورہ کیا، ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ غیر آئینی تھی جبکہ وزیر اعظم، صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتے تھے۔
عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ ووٹنگ والے دن کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں فوری نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا جبکہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتے رہے گی۔عدالت نے صدر مملکت کے نگراں حکومت کے احکامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا، ساتھ میں حکم دیا کہ موجودہ حکمنامے سے آرٹیکل 63 کی کارروائی متاثر نہیں ہوگی۔
اس قبل چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ کیا آپ نے پورے ملک کی حلقہ بندیاں کرنی ہیں یا کسی ایک علاقے کی؟، جس پر چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ پورے ملک کی حلقہ بندیاں ہونی ہیں جبکہ 6 سے 7 ماہ میں حلقہ بندیاں ہو سکیں گی، انہوں نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ حلقہ بندیاں ہوں، فاٹا کے انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کی تمام حلقہ بندیاں بدلیں گی، فاٹا کی 12 نشستیں ختم ہو کر خیبر پختونخوا میں ضم ہو گئی ہیں، چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے مکمل اقدامات کرے، عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم وفاقی کابینہ سمیت اپنے عہدوں پر بحال ہوگئے۔
عدالت عظمیٰ کےچیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے اس معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس اور متعدد فریقین کی درخواستوں پر آج مسلسل پانچویں روزتک سماعت کی۔
فیصلہ سنائے جانے سے قبل سپریم کورٹ کے باہر حفاظتی اقدامات مزید سخت کردیے گئے اور پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری کو طلب کرلیا گیا جبکہ فواد چوہدری، فیصل جاوید، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں کے متعدد رہنما فیصلہ سننے کے لیے عدالت عظمیٰ پہنچے۔ اس موقع پروکلا اور پولیس اہلکاروں کے درمیان ہاتھا پائی دیکھنے میں آئی اور ہاتھا پائی کمرہ عدالت میں داخل ہونے کے دوران ہوئی۔
آج دن کو سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے شام ساڑھے 7 بجے سنانے کا اعلان کیا اور ریمارکس دیئے کہ ہمیں قومی مفاد کو بھی دیکھنا ہے، یہ بات بالکل واضح ہے کہ رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا۔
آج صبح سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے روسٹرم پر آکر عدالت کو بتایا کہ رات کو نجی ہوٹل میں تمام اراکین صوبائی اسمبلی نے حمزہ شہباز کو وزیر اعلی بنا دیا، سابق گورنر چوہدری سرور آج حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کا اجلاس بھی آج بلا لیا ہے، آئین ان لوگوں کے لیے انتہائی معمولی سی بات ہے، اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے کہا کہ پنجاب کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیں گے، پنجاب کا معاملہ ہائی کورٹ میں لے کر جائیں، قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ کل پنجاب اسمبلی کے دروازے سیل کر دیے گئے تھے، کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟
بعد ازاں چیف جسٹس نے مسلم لیگ (ن) کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم سے ہٹادیا۔
بینچ کے رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیر اعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟ صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں، جسٹس مظہر عالم خیل نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی؟ کیا دادرسی نہ ہو، تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر زیادتی کسی ایک رکن کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، قومی اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے اس نے اپنا اسپیکر اور وزیر اعظم منتخب کرنا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاعلی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے، یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے، کہیں تو لائین کھینچنا پڑے گی، صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا، عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمے کو غیر آئینی قرار دیا، عدالت نے اسمبلی کے خاتمے کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا، جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔
بینجچ کے سربراہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟وزیراعظم آئین کے مطابق کام جاری رکھے ہوئے ہیں، نگراں وزیر اعظم کا تقرر کا عمل بھی جاری ہے، اس سب میں بحران کہاں ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے، ملک میں کہیں اور بحران ہو سکتا ہے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن کا اعلان کردے، الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے، انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر اسپیکر کی رولنگ حکومت اور وزیراعظم کی مدت کی توسیع کے لیے ہوتی تو بہت غلط ہوتا، موجودہ صورتحال میں وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کا اعلان کردیا گیا، الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اسمبلی کی اکثریت تحلیل نہ چاہے تو کیا وزیراعظم صدر کو سفارش کر سکتے ہیں؟، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منحرف اراکین کے باوجود تحریک انصاف اکثریت جماعت ہے، اگر اکثریتی جماعت سسٹم سے آؤٹ ہو جائے تو کیا ہوگا؟، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ صدر مملکت کے وکیل کی حیثیت سے سیاسی معاملے کا نہیں دے سکتا، ساتھ ہی ان کے دلائل مکمل ہوگئے۔
اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کی، عدالت کے سامنے معاملہ ایوان کی کارروائی کا ہے، ایوان کی کارروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمان کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، وزیراعظم صدر کی ہدایات پر کام کر رہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے، امتیاز صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں، امتیاز صدیقی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں، عدالتی فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں، امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے قومی سلامتی کمیٹی پر انحصار کیا، سلامتی کمیٹی پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔
وزیر اعظم عمران خان کے وکیل سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟ جس پر امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم، چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات ن کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی گئی، وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی، اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ایوان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ختم کر سکتا تھا، وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی، وکیل وزیر اعظم نے کہا کہ اگر آئین کو نقصان پہنچانا ہوتا تو ڈپٹی اسپیکر منحرف اراکین کی رکنیت معطل کرسکتا تھا، وزیراعظم نے بدنیتی کا مظاہرہ نہیں کی، وزیراعظم نے کہا انتخابات پر اربوں روپے لگیں گے ان کے خلاف عوام میں جا رہا ہوں جنہوں نے کئی سال حکومتیں کیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے خود سے منصوبہ بنایا، اسپیکر نے 28 مارچ کو رولنگ کیوں نہیں دی؟، امتیاز صدیقی نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی، ہم نے خود اپنی حکومت تحلیل کی۔
وزیر اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ سوال ہوا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا، کیا پوائنٹ آف آرڈر ہر کسی بھی وقت بات ہوسکتی ہے اس پر دلائل دوں گا، پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جاسکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر وزیر قانون نے ہٹایا تھا، کیا آپ کے پاس وزیر قانون کے پوائنٹ آف آرڈر کا متن ہے؟، جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر کو کوئی مواد پیش کیا گیا؟، جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ رولنگ آئینی تھی یا غیر آئینی تھی، اگر رولنگ غیر آئینی تھی تو کیا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے، نعیم بخاری نے کہا کہ رولنگ کے دوران کیا طریقہ کار کی غلطی کی گئی؟ ماضی میں سپریم کورٹ نے مداخلت سے گریز کیا تھا، اگر اسپیکر فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا تو کیا سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ اگر اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟ پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن اسپیکر کا اختیار ضرور ہے۔
نعیم بخاری کا کہنا تھا ماضی میں جب اسمبلی توڑی گئی تو اسے غلط قرار دینے کے باوجود بھی الیکشن کے عمل کو نہیں روکا گیا، اسمبلی کی کارروائی شروع ہوتے ہی فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہوجاتی تو پوائنٹ آف آرڈر نہیں لیا جاسکتا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ موشن اور تحریک کے لفظ میں کیا فرق ہے؟ جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ موشن اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں، ساتھ ہی اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے منٹس عدالت میں پیش کردیے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اسپیکر کی تحریک مسترد کرنے کا اختیار قانون میں کہاں لکھا ہے، ہم پوائنٹ آف آرڈر کی تعریف سمجھنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ جب عدم اعتماد کی تحریک آجائے تو کیا نیا پوائنٹ آف آرڈر اٹھایا جاسکتا ہے، جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا اٹھایا گیا پوائنٹ آف آرڈر ایجنڈے میں شامل تھا؟ نعیم بخاری نے عدالت جواب دیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر کسی بھی وقت بات ہوسکتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ آئینی تقاضا ہے، کیا ووٹنگ کے آئینی حقوق کو رولز کے زریعے غیر مؤثر کیا جاسکتا ہے؟ نعیم بخاری نے 28 مارچ کے قومی اسمبلی اجلاس میں وقفہ سوالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن اراکین نے کہا سوال نہیں پوچھنے صرف ووٹنگ کرائیں، اس شور شرابے میں ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا، انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو خط پر بریفننگ دی گئی، کمیٹی کو بتایا گیا کہ عدم اعتماد ناکام ہوئی تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے، پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ دینے والوں کے نام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ کس نے دی تھی؟ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی بڑی مشکل سے 2 یا تین منٹ کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پوائنٹ آف ارڈر پر اپوزیشن کو موقع نہیں ملنا چاہیے تھا؟۔
بینچ کے رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی جبکہ رولنگ پر دستخط اسپیکر کے ہیں، ڈپٹی اسپیکر کے دستخط کدھر ہیں؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس کے منٹس میں ڈپٹی اسپیکر کی موجودگی ظاہر نہیں ہوتی، کیا ڈپٹی اسپیکر اجلاس میں موجود تھے، نعیم بخاری نے کہا کہ جو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی والی نہیں ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں موجود تھے؟ وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آرہے، کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ عدالت نے کہا کہ وزیر خارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چاہیے تھا، مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا نام بھی میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آرہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی اجلاس میں 57 ارکان موجود تھے، اراکین اسمبلی کے نوٹس میں خط کے مندرجات آ گئے تھے، کیا پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ کی بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے عدالت میں فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا، عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں اس لیے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی، تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا بلکہ ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے، اسپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کے لیے عدالت نہیں آ سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رولز سے مشروط ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ اٹارنی جنرل نےمزید کہا کہ پارلیمانی کارروائی کو مکمل ایسا استثنیٰ نہیں سمجھتا کہ کوئی آگ کی دیوار ہے، پارلیمانی کارروائی کا کس حد تک جائزہ لیا جا سکتا ہے عدالت فیصلہ کرے گی، انہوں نے کہا کہ اگر اسپیکر کم ووٹ لینے والے کے وزیراعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسپیکر ایوان کا نگراں ہے، اسپیکر صرف اپنی ذاتی تسکین کے لیے نہیں بیٹھتا، اسپیکر ایسا تو نہیں کر سکتا کہ اپنی رائے دے باقی اراکین کو گڈ بائے کہہ دے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہوتا ہے، رکن اسمبلی کی میعاد نہیں ہوتی بلکہ اسمبلی کی میعاد ہوتی ہے، ایک فرد کو اسمبلی تحلیل کرنے کا حق حاصل ہے، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک 28 مارچ کو ہی ختم ہوگئی تھی، عدم اعتماد کی تحریک کی منظوری ایوان نے دینی ہوتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حق آئین نے دیا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش کرنے کی منظوری کے لیے 20 فیصد یعنی 68 ارکان کا ہونا ضروری نہیں، اگر 68 ارکان تحریک منظور اور اس سے زیادہ مسترد کریں تو کیا ہوگا؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر 172 ارکان تحریک پیش کرنے کی منظوری دیں تو وزیراعظم فارغ ہوجائے گا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلی میں کورم پورا کرنے کے لیے 86 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے، تحریک پیش کرنے کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر لیو گوانٹ کرتے ہوئے کوئی بنیاد بتانا ہوتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی کوئی بنیاد بتانا ضروری نہیں، تحریک پیش کرتے وقت تمام 172 لوگ سامنے آجائیں گے، تحریک پیش کرنے اور ووٹنگ میں 3 سے 7 روز کا فرق بغیر وجہ نہیں، سات روز میں وزیراعظم اپنے ناراض ارکان کو منا سکتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 20 فیصد اراکین نے جب تحریک پیش کر دی تو بحث کرانا چاہیے تھی، وزیر اعظم کو سب پتا ہوتا ہے وہ جاتے ارکان سے پوچھتے وہ کیا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ فواد چوہدری 28 مارچ کو اعتراض کرتے تو کیا تحریک پیش کرنے سے پہلے مسترد ہوسکتی تھی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہو سکتی تھی، تحریک عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی۔
بینچ کے رکن جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ اسپیکر نے قرار دے دیا کہ تحریک منظور ہوگئی، آپ کیسے چیلنج کر سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہوسکتی تو کیس ہی ختم ہو گیا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جہاں آئین پاکستان نے خود سے انتخابات کا ذکر کرایا ہے اس آئینی اختیار کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ عدلیہ کو پارلیمان کی کارروائی کو جانچنے کا کس حد تک اختیار حاصل ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسپیکر پارلیمان کا محافظ ہوتا ہے، کیا اسپیکر کو آئینی تقاضوں کے برخلاف جانے کا اختیار حاصل ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے لیے منظور ہوئی تو اس وقت 169 اراکین تھے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو 172 اراکین پارلیمان میں موجود تھے، اس حساب سے تو وزیراعظم فارغ ہوگئے، اسمبلی سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی منظوری لینا آئینی تقاضا ہے، جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ فرض کریں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے 68 اراکین کی ضرورت ہے، اراکین 67 ہوتے ہیں اسپیکر 68 شمار کرلیتا ہے، پھر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہوتی وزیراعظم فارغ ہوجاتا ہے ایسے صورتحال میں کیا ہوگا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا اصل مقدمہ ہی یہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا ووٹنگ کے لیے 172 ارکان ہونے چاہیے، لیو گرانٹ اسٹیج پر 172 ارکان کی ضرورت نہیں، آرٹیکل 55 کے تحت ایوان میں فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر لیو گرانٹ کے وقت 172 ارکان چاہیے تو پھر تو بات ہی ختم ہو گئی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اسمبلی کی تحلیل اصل مسئلہ ہے، اس پر آپ کو سننا چاہتے ہیں، دیکھنا ہے اسمبلی تحلیل اور اسپیکر رولنگ میں کتنے ٹائم کا فرق ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد نمٹانے کے بعد ہی اسمبلی تحلیل ہوئی، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا، عدالت نے آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں، نتائج میں نہیں جائیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا، میرا مدعا نئے انتخابات کا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے، ایک بات تو نظر آرہی ہے رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات تو بالکل واضح ہے رولنگ غلط دی گئی، سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا کرنا ہے، اب اٹارنی جنرل اور مسلم لیگ (ن) کے وکیل بتائیں آگے کیسے چلنا ہے، ہم نے ملکی مفاد کو دیکھنا ہے، فیصلہ آج سنائیں گے۔
اس کے بعدسماعت میں کچھ وقت کا وقفہ کردیا گیا، اس دوران سپریم کورٹ کی سکیورٹی بڑھادی گئی۔
سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو عدالت نے برطرف ملازمین کی نظرثانی مسترد کرکے بھی بحالی کا راستہ نکالا تھا، اپوزیشن لیڈر بھی موجود ہیں، اپوزیشن سے تجاویز بھی لے لیں، موجودہ مینڈیٹ 2018 کی اسمبلی کا ہے، آج اگر کوئی حکومت بنائے گا تو کتنی مستحکم ہوگی۔
اس پر عدالت نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو روسٹرم پر بلا لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سری لنکا میں بجلی اور دیگر سہولیات کے لیے بھی پیسہ نہیں بچا، آج روپے کی قدر کم ہوگئی، ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے، اپوزیشن لیڈر کے لیے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا۔ روسٹرم پر آکر شہباز شریف نے کہا کہ عام آدمی ہوں قانونی بات نہیں کروں گا، عدالت کے سامنے پیش ہونا میرے لیے اعزاز ہے، رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ میری ایک ہی درخواست ہے کہ قومی اسمبلی کو بحال کیا جائے، ہماری تاریخ میں آئین کئی مرتبہ پامال ہوا، جو بلنڈر ہوئے ان کی توثیق اور سزا نہ دیے جانے کی وجہ سے یہ حال ہوا۔
شہباز شریف کاکہناتھا عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، پارلیمنٹ کو عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے، بطور اپوزیشن لیڈر چارٹر آف اکانومی کی پیش کش کی، سال 2018 میں ڈالر 125 روپے کا تھا، اب ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، پارلیمنٹ کو اس کا کام کرنا چاہیے، شہباز شریف نے کہا کہ پی ٹی آئی نے بھی اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی، اپنی پہلی تقریر میں چارٹر آف اکانومی کی بات کی تھی، عوام بھوکی ہو تو ملک کو قائد کا پاکستان کیسے کہیں گے، مطمئن ضمیر کے ساتھ قبر میں جاؤں گا، سیاسی الزام تراشی نہیں کروں گا، آج بھی کہتا ہوں چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت فائدے میں رہتی ہے، سیاست پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اپوزیشن پہلے دن سے الیکشن کرانا چاہتی تھی، جس پر شہباز شریف نے کہا کہ مسئلہ آئین توڑنے کا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئین کی مرمت ہم کر دیں گے، مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت میں کہا کہ کون کس کو نہیں چھوڑے گا، کس کو سرپرائز دے گا یہ نہیں کہنا چاہیے، وزیراعظم نے سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیشہ نئے الیکشن کا مطالبہ کرتے تھے آج کیوں نہیں مان رہے، سرپرائز پر اپنا فیصلہ واضح کر چکے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدم اعتماد اگر کامیاب ہوتی ہے تو اسمبلی کا کیا دورانیہ رہے گا؟ شہباز شریف نے کہا کہ پارلیمنٹ کا ڈیڑھ سال ابھی باقی ہے، اپنی اپوزیشن سے مل کر انتخابی اصلاحات کریں گے تاکہ شفاف الیکشن ہو سکے، عام آدمی تباہ ہوگیا اس کے لیے ریلیف پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ وکیل مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی آخری باتیں دھمکی آمیز تھیں، اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، ڈالر مہنگا اور روپے کی قدر کم ہو گئی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام معاشی مسائل ہیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ معاشی مسائل کس نے پیدا کیے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا ہم سوالات کے جواب دینے بیٹھے ہیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ سیاست روز تبدیل ہوتی ہے، منحرف ارکان کے علاوہ اپوزیشن کے پاس 177 ارکان ہیں، چیف جسٹس کے کہنے پر مخدوم علی خان نے عدالت کو اپوزیشن ارکان کی پارٹی وائز تفصیلات بتائیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کی دفعہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت کیس سن رہے ہیں، عوامی حقوق کا تحفظ کریں گے۔
آئین کی دفعہ 184(3 ) ہے کہ آرٹیکل 199 کے احکام پر اثر انداز ہوئے بغیر عدالت عظمیٰ کو اگروہ یہ سمجھے کہ حصہ دوم کے باب1 کے ذریعے تفویض شدہ بنیادی حقوق میں سے کسی حق کے نفاذ کے سلسلے میں عوامی اہمیت کا کوئی سوال درپیش ہے، مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردو نوعیت کا کوئی حکم صادر کرنے کا اختیار ہوگا۔
مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا
مجھے اندازہ تھا حکومت بالآخر انتخابات کی طرف جائے گی، جانتا تھا کہ اسپیکر کی رولنگ کا دفاع کرنا ممکن نہیں، انہوں نے کہا چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس نقطہ پر لگتا ہے تیاری کرکے آئے ہیں مخدوم علی خان نے کہا کہ مجھے پتا تھا یہ اس طرف آئیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ آئین سے 58 (2) (بی) جمہوری انداز میں نکالا گیا تھا، مخدوم علی خان نے کہا کہ اس رولنگ کے بعد اقدامات کی توثیق کی تو ایک پیغام جائے گا کہ پلگ نکال دو تاکہ دوسرا نہ آسکے،ن لیگ کے وکیل نے کہا
تین اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، صوبائی حکومتیں رکھتے ہوئے انتخابات کیسے شفاف ہوں گے؟صدر نے اسپیکر کی ملی بھگت سے سمری منظور کی، چیف جسٹس نے کہا کہ اپوزیشن پر بہت سنجیدہ الزامات عائد ہیں، سخت الفاظ استعمال کرنے سے گریز کریں، عدالت میرٹ پر جائے گی نہ ہی الزامات پر فیصلہ دے گی، شہباز شریف نے کہا کہ غداری کے الزام کے ساتھ الیکشن کیسے لڑیں گے؟ ہم اس الزام کے ساتھ گھر والوں کا سامنا نہیں کر سکتے، چیف جسٹس نے کہا کہ جنہوں نے غداری کا الزام لگایا ہے وہ ثابت کریں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ رولنگ ختم ہوگئی تو الزام کیسے برقرار رہے گا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا آپس میں تعلق اتنا خراب ہے کہ پتا نہیں ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں، میاں صاحب وہ آپ سے ناراض رہتے ہیں ہاتھ نہیں ملاتے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میاں صاحب چھوڑ دیں، آپ میں سے کسی کو کچھ نہیں کہا گیا، شہباز شریف نے کہا کہ سازش کے ثبوت لے آئیں، عدالت کی ہر سزا قبول کرتے ہوئے سیاست چھوڑ دوں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت تنقید ہو رہی ہے، سیاست میں سب کا احترام ہے، عدالت کسی کو ڈِس ریسپیکٹ نہیں کرنے دے گی، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت تنقید ہو رہی ہے، سیاسی لوگ سپریم کورٹ کے احاطہ کو ناپاک نہ کریں، احاطہ عدالت میں سیاسی گفتگو ہوتی، ہم پر تنقید اور لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، قوم قیادت کے لیے ترس رہی ہے، مجھے کہا گیا باہر میڈیا ٹاک پر پابندی لگا دیں، عملے کو کہا سیاستدانوں سے کمرہ عدالت میں درخواست کروں گا، رضا ربانی نے کہا کہ نئے انتخابات کو متنازع نہیں بنانا چاہتے، انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ الیکشن اور اسٹیبلشمنٹ دونوں متنازع ہوئے، ان حالات میں اصلاحات کے بغیر انتخابات کا فائدہ نہیں ہوگا۔
جس کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا اور اعلان کیا کہ شام ساڑھے 7 بجے سنایا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی کارروائی مکمل، اب ہم معاملے پر غور کریں گے، فیصلہ ساڑھے 7 بجے سنایا جائے گا، وکیل مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ضیا الحق کا اسمبلی تحلیل کرنا اور عمران خان کا اسمبلی تحلیل کرنا دونوں غیر آئینی ہے، ضیا الحق نے 58 ٹو بی جبکہ عمران خان نے 95 کا غیر آئینی استعمال کیا۔
سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھی روسٹرم پر بلایا، بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں آئین کی بالادستی ہو۔ چیف جسٹس نے بلاول سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی بقا کے لیے آپ کی تین نسلوں نے قربانی دی ہے، ہم آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، چیف جسٹس نے استفار کیا کہ متحدہ اپوزیشن انتخابی اصلاحات سے متعلق تجاویز تیار کیں تھیں وہ کدھر ہیں؟ انتخابی اصلاحات سے متعلق تجاویز جمع کروائیں،
198 شہباز شریف نے کہا کہ اراکین پر غداری کا الزام لگایا گیا، عمران خان غیر ملکی شواہد لائیں سیاست چھوڑ دوں گا جو سزا دینگے قبول ہوگی، چیف جسٹس نے کہا کہ سیاست دان ایک چھت تلے رہ سکتے ہیں، آپ کا دل بڑا ہے عمران خان آپ سے ناراض رہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں ملک میں استحکام ہو امن ہو خوشحالی ہو، ہم پر تنقید ہورہی ہے، سوشل میڈیا ہم پر بڑا مہربان بنا ہوا ہے، باہر لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، یہ ملک سب کے لیے بنا ہوا ہے، سب کو حق ہونا چاہیے، فیصلہ سنائے جانے سے قبل سیکریٹری الیکشن کمیشن طلب کیے جانے پر سپریم کورٹ پہنچے۔
یادرہے کہ گزشتہ سماعت میں صدر مملکت نے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا تھا اور ان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ یہ مقدمہ درحقیقت پارلیمان کے استحقاق میں مداخلت ہے، سپریم کورٹ پارلیمان کے بنائے قانون کو پرکھ سکتی ہے لیکن مداخلت نہیں کر سکتی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ آئین کا آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی کہیں مثال نہیں ملتی، اگر اسے ہونے دیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہوسکتے ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر کسی نے غداری کی تو ملک کے سربراہ نے پوری اسمبلی ہی اڑا دی۔
اس سے قبل 5 اپریل کو ہونے والی سماعت میں پیپلز پارٹی کے رضا ربانی اور مسلم لیگ (ن) کے مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے جبکہ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ کیس جلد نمٹانا چاہتے ہیں، نگران حکومت کا قیام کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، اس سے قبل 4 اپریل کی سماعت میں سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کی جانب سے اس معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست مسترد کردی تھی، اس معاملے کی پہلی سماعت میں سپریم کورٹ نے تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط کردیے تھے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی،جس پر تاخیر کے بعد 3 اپریل کو ووٹنگ متوقع تھی، تاہم ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہیں وقفہ سوالات میں بات کرتے ہوئے وزیر قانون فواد چوہدری کی جانب سے قرارداد پر سنگین اعتراضات اٹھائے گئے۔ فواد چوہدری نے اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو بیرونِ ملک سے پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا، جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کوآئین کے منافی قراردیتے ہوئے مسترد کردیا اور اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہونے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھجوانے کا اعلان کیا اور قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایت کی، وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اسپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جو فیصلہ کیا اس کے بعد میں صدر مملکت کو تجویز بھیج دی ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کریں ہم جمہوری طریقے سے عوام میں جائیں اور عوام فیصلہ کرے کہ وہ کس کو چاہتے ہیں۔ بعدازاں صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز منظور کر لی۔ایک ہی صورتحال میں تیزی سے رونما ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں کے بعد رات گئے صدر مملکت عارف علوی نے ایک فرمان جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قومی اسمبلی، کابینہ کے تحلیل اور وزیر اعظم کی سبکدوشی کے بعد نگراں وزیر اعظم کے تقرر تک عمران خان اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔
ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پرچیف جسٹس پاکستان عمر عطابندیال نے ازخود نوٹس لیا تھا۔ از خود نوٹس کے علاوہ مختلف پارٹیوں کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن پر سماعت کے لیے رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ انتدائی سماعت میں سپریم کورٹ نے تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کوئی حکومتی ادارہ غیر آئینی حرکت نہیں کرے گا، تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے اس صورت حال سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔