شہباز شریف بڑے بھائی کی لائن لیں گے یا اسٹیبلشمنٹ کی؟
نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے کے برعکس مفاہمتی بیانیہ لے کر چلنے والے شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ آیا وہ اپنے پارٹی قائد اور بڑے بھائی کے بیانیے پر چلیں گے یا پھر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی لائن لیں گے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کے اندر مزاحمتی اور مفاہمتی بیانیے کی جنگ کا پہلا راؤنڈ مفاہمتی بیانیہ رکھنے والے شہباز شریف اور حمزہ شہباز جیت چکے ہیں اور اقتدار نواز شریف خاندان سے نکل کر مکمک طور پر شہباز شریف خاندان کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔
عوامی حلقوں میں عمومی تاثر تو یہی ہے کہ شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کا مطلب نواز شریف کی جیت ہے لیکن باخبر حلقے یہ دعوی کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے ہونے والی انڈرسٹینڈنگ کے مطابق شہباز شریف اپنا مفاہمتی بیانیہ آگے بڑھائیں گے اور مزاحمتی بیانیے سے پرہیز کی پالیسی اختیار کریں گے۔ ویسے بھی مزاحمتی بیانیہ اپنانے کا مقصد فوجی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر اقتدار حاصل کرنا تھا اور وہ پورا ہوچکا ہے۔ خیال ہے کہ وزارت عظمی کی خوشیاں اپنی جگہ لیکن یہ بات بھی دھیان میں رکھی جانی چاہیے کہ اس مرتبہ وزارت عظمی کی یہ ذمہ داری اپنے اندر جو سنگین ” فالٹ لائنز‘‘ لیے ہوئے ہے ان کا سامنا کرنا آسان نہیں ہے۔ 71 سالہ شہباز شریف پنجاب میں وزیراعلیٰ کے طور پر بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف، بھائی نواز شریف اور بھتیجی مریم نواز سمیت ان کے خاندان کے متعدد افراد سیاست میں ہیں۔ موروثی سیاسی کے مخالفین وزیر اعظم شہباز شریف کے اپنے ہی بیٹے کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنوانے کی کوششوں کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہے۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد اگر پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی ان کے ہی صاحبزادے حمزہ شہباز شریف بن جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اقتدار مکمل طور پر نواز شریف کے گھر سے نکل کر شہباز شریف کے گھر منتقل ہو گیا ہے۔ اس بات کو زیادہ دیر تک برداشت کرنا نواز شریف فیملی کے لیے آسان نہیں ہو گا اور مریم نواز اپنے چچا اور کزن کو جتنی بھی مبارکبادیں دے لیں، بالآخر یہ معاملہ خرابی کی طرف جائے گا۔
معروف تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی نے بتایا کہ شہباز شریف کی شہرت ایک اچھے منتظم کی ہے وہ کام پر یقین رکھتے ہیں اور محاذ آرائی سے گریز کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ان کے بقول شہباز شریف اہداف کا تعین کرکے سخت محنت سے کام کرکے ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کے ذریعے عملی نتائج دینے کی شہرت رکھتے ہیں۔
پہلی دفعہ وزیراعظم بننے والے شہباز شریف اس سے پہلے ماضی میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے دوران براہ راست انتظامی سیکریٹریوں کے ذریعے خود اپنی نگرانی میں کام کرواتے تھے۔ اب انہیں جس کابینہ کا سامنا ہوگا اس کے وزیروں کو نظر انداز یا بائی پاس کرنا ان کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ کیا وہ کراچی یا سندھ کے معاملات میں اپنی رائے پر اصرار کر سکیں گے۔ ان پر ایک طرف عوامی مسائل کے حل کرنے کا دباؤ ہو گا تو دوسری طرف انہیں تحریک انصاف کی سخت مخالفت کا سامنا ہوگا۔ مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس نوعیت کی وسیع البنیاد حکومت قائم ہوئی ہے۔ شہباز شریف کو سب کو اکاموڈیٹ کرنا ہو گا اور ضروری اصلاحات کے بعد منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہوگا۔
سینئر صحافی سہیل وڑائچ کی رائے میں شہباز شریف سیاسی مسائل کا حل سیاسی طور پر نکالنے کی کوشش کریں گے۔ تاہم ان کے خیال میں شہباز شریف کے لیے مسنگ پرسنز اور فاٹا کے امور پر اتحادیوں کی توقعات پر پورا اترنا آسان نہیں ہو گا۔ ان کے مطابق ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ وہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں کیسے توازن پیدا کریں گے یا ملک کی سیکورٹی اور خارجہ پالیسی میں کتنی مرضی استعمال کر سکیں گے۔ بقول سہیل وڑائچ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز کو بڑے مشکل چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ وہ ایسے حالات کو بہتر بنانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں ان کا رول بہت نمایاں تھا۔ سی پیک منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل، ڈینگی کے موثر خاتمے میں بھی ان کی کارکردگی بہتر رہی۔ اس لیے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کامیاب ہوں گے۔
بعض لوگوں کے نزدیک شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے موقعے پر روپے کی قدر میں اضافے اور اسٹاک ایکسچینج میں بہتری کے آثار رونما شروع ہونا شروع ہو گئے ہیں جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ملک کی کاروباری برادری شہباز حکومت پر اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔
شریف خاندان میں اختلافات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی محمد ولید نے کہا کہ جب پہلی مرتبہ ان کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا تھا تو ان کے اپنے خاندان کے افراد نے ان کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اس کام کی اہلیت نہیں رکھتے، لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنا لوہا منوا کر اس تاثر کو زائل کر دیا اور بہت سے ترقیاتی کام کروا کر مسلم لیگ نون کے ووٹ بینک میں اضافہ کیا۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ شہباز کو ‘اسٹیبلشمنٹ کا دوست‘ قرار دیا جاتا ہے کیو کہ شہباز ہمیشہ سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر رکھنے کے حامی تھے۔ وہ سیاسی الجھاؤ اور محاذ آرائی کی بجائے معاشی بہتری کے لیے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور اس کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں بھی کیا ہے۔
اسلیے مجیب شامی سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ حکومت طویل عرصے کے لیے نہیں بنی ہے اس لیے اس بات کا امکان کم ہے کہ شہباز کو اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف میں سے کسی ایک کے ساتھ جانے کی مشکل صورتحال پیش آئے۔ انکا کہنا ہے کہ اب ان سب کو تجربہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے زخم کھا کر اور زخم لگا کر بھی دیکھ لیا ہے۔ اب آگے بڑھنے کا وقت ہے امید ہے سارے فریق اپنا فوکس ملکی بہتری کی طرف رکھیں گے۔‘‘
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ماضی میں شہباز مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین پل کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں ایک طرف اسٹیبلشمنٹ سے نواز شریف کی باتیں منوائی ہیں اور دوسری طرف نواز شریف سے بھی اسٹیبلشمنٹ کی کئی باتیں منوانے میں کامیاب رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی شہباز شریف کو نواز شریف سے الگ کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں لیکن انہوں نے خاندانی روایات کی پیروی کرتے ہوئے اپنے بھائی کو نہیں چھوڑا۔ ویسے بھی شہباز جانتے ہیں کہ ان کی وزارت عظمی اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی ہی دین، ہے لہذا وہ نہ تو اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کریں گے اور نہ ہی نواز شریف کو۔