اقتدار کی تبدیلی پر سوشل میڈیا صارفین آمنے سامنے
پاکستان میں آئین کے مطابق پارلیمینٹ کے ہاتھوں عمران حکومت کی تبدیلی کا عمل مکمل ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم کے حامیوں اور حزب اختلاف کے کارکنان سوشل میڈیا پر بھی ایک دوسرے کے خلاف رد عمل دیتے نظر آتے ہیں۔ اس سے پہلے ہی عمران کی کال پر ان کے حامیوں نے اتوار کے روز ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے کیے اور فوجی قیادت کے خلاف نعرے بازی کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران کے یہی حامی ماضی میں نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ہاتھوں برطرف کیے جانے کے بعد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فوجی قیادت کے حق میں نعرے بازی کرتے دکھائی دیتے تھے۔ یعنی وقت کا پہیہ الٹا گھوم چکا ہے اور ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والے عمران خان کے حامی اب اسی اسٹبلشمنٹ کے خلاف ہو چکے ہیں۔ ان کا گلا ہے کہ جب اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر کی تو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
دوسری جانب قومی اسمبلی نے 11 اہریل کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو ملک کا 23واں وزیراعظم منتخب کر لیا۔ ان کے انتخاب کے بعد سوشل میڈیا پر خوشی اور غصے کے ملے جلے تاثرات نظر آ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر غصے کا اظہار کرنے والوں میں بڑی تعداد ان کی رہی جو عمران کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کیے جانے پر افسردہ ہیں۔
ٹوئٹر پر صارفین کی ایک بڑی تعداد نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کی پہلی تقریر پر بھی تبصرے کر رہی ہے، معروف صحافی اور کالم نگار فہد حسین اپنے ٹویٹ میں شہباز شریف کی تقریر میں خارجہ پالیسی اور پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے ذکر سے متاثر نظر آئے۔ اینکرپرسن حامد میر نے ایک تصویر شیئر کی جس میں شہباز شریف کو عمران سے ہاتھ ملاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، اس تصویر کے ساتھ حامد میر نے لکھا کہ ’شہباز نے 2018 میں وزیراعظم کے انتخاب کے بعد عمران کو مبارکباد دی تھی، آج شہباز شریف منتخب ہوئے لیکن عمران وہاں انہیں مبارکباد دینے کے لیے موجود نہیں تھے۔
کالم نگار وسعت اللہ خان نے مزاح کا سہارا لیتے ہوئے لکھا آج پہلی بار شہباز شریف اور آرمی چیف ایک ساتھ پبلک میں نظر آئیں گے، وہ شاید یہ کہنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ماضی میں یہ دونوں شخصیات چھپ کر ملا کرتی تھیں۔ لیکن وسعت اللہ خان کی یہ پیشگوئی غلط ثابت ہوگئی چونکہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے وزیراعظم نواز شریف کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔
اس کی وجہ شاید وہ ردعمل تھا جو عمران کے حامیوں نے اپنے وزیر اعظم کی فراغت کے بعد دیا اور فوجی قیادت کے لیے نازیبا زبان استعمال کی۔
شہباز شریف کے وزیراعظم بنتے ہی کچھ صارفین نے ان سے اپنی خواہشات کا اظہار بھی کیا۔ کراچی کے صحافی عبدالغفار نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ شہباز شریف نے بحیثیت وزیراعلیٰ لاہور اور پنجاب کے لیے اچھا کام کیا تھا، اُمید ہے بحیثیت وزیر اعظم پاکستان کے لیے بھی ایسا ہی کام کریں گے، مزید لکھا کہ بحیثیت کراچی کا شہری میں کراچی کے لیے مطالبہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے دو الگ الگ ٹویٹس میں جہاں شہباز شریف کو وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دی وہیں بحرانوں کے خاتمے کی اُمید ظاہر کی۔
سابق کپتان نے رخصت باوقار طریقے سے قبول کرنی چاہئے کی تلقین کرتے ہوئے لکھا کہ تاریخ کے صفحات میں بالآخر بات اخلاقی معیار، جمہوریت اور آئین کی بالادستی پر آتی ہے۔
امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے لکھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ کوئی بھی پاکستانی غدار نہیں ہے، سیاست میں اختلاف رائے کو اختلاف رائے ہی رکھنا چاہئے۔ ایک صارف نے لکھا کہ مبارک ہو، ہم واپس پرانے پاکستان میں پہنچ گئے جس کا وزیراعظم شیباز شریف مائیک توڑنے اور گانا گانے کے لیے شہرت رکھتا ہے۔
دوسری جانب عمران اور انکے ساتھیوں نے شہباز شریف کو وزیراعظم ماننے سے انکار کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا اعلان کیا ہے۔ سابقہ حکومتی جماعت سے منسلک لوگوں کی ٹویٹس دیکھ کر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی عوامی رابطہ مہم میں مزید تیزی لانے جا رہی ہے۔
سینیٹر فیصل جاوید نے عمران کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ان کی جماعت بدھ کو پشاور اور اتوار کو کراچی میں بڑے جلسے کرے گی، نئے انتخابات کا انعقاد پاکستان کے لوگوں کا بنیادی مطالبہ ہے۔ سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں شہباز شریف کو ’ڈمی وزیراعظم‘ قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ ’انٹرنیشنل پلئیرز کے ہاتھوں یرغمال شخص جو آج عدالت سے ایک بار پھر جھوٹ بول کر وزیراعظم کا حلف لے رہا ہے اس کی نہ کوئی اخلاقی حیثیت ہے نہ سیاسی اہمیت، ملک انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے جو اس بحران کا واحد حل ہیں۔ تاہم دوسری جانب شہباز شریف کے حمایتی سوشل میڈیا صارفین ان کی قومی اسمبلی میں پہلی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کر رہے ہیں کہ شہباز نے ثابت کیا کہ ان میں اور عمران کی اپروچ میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہبازشریف نے اپنی تقریر میں عمران کی طرح اپنے مخالفین کو لتاڑنے کی بجائے عوامی فلاح پر فوکس کیا اور لوگون کو ریلیف دینے کے لیے انقلابی اعلانات کیے۔