احتساب پراربوں خرچنے والے کپتان کا رزلٹ صفررہا
پونے چار سالہ دور حکومت میں اپنے سیاسی مخالفین کے احتساب پر قومی خزانے سے دو ارب روپے کی رقم خرچنے کے باوجود سابق وزیراعظم عمران خان کسی اپوزیشن رہنما پر کوئی کیس ثابت نہ کر پائے اور ان کا رزلٹ صفر رہا۔ احتساب کا نعرہ لگا کر برسر اقتدار آنے والے کپتان کے ایما پر ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف سینکڑوں کیسز بنائے گئے، لیکن نہ تو قومی احتساب بیورو اور نہ ہی وفاقی تحقیقاتی ادارہ کسی ایک بھی ملزم کو سزا دلوا سکا۔ اپنی الیکشن مہم کے دوران عمران خان نے برسراقتدار آتے ہی لوٹے ہوئے دو سو ارب روپے پاکستان واپس لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن درحقیقت وہ ایک پائی بھی واپس نہ لاسکے اور الٹا احتساب کے نام پر قومی خزانے کو 2 ارب روپے کا ٹیکہ لگا دیا۔
کپتان دور میں اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے جن سیاستدانوں کو مقدمات بنا کر گرفتار کیا گیا ان میں سے 80 فیصد ملزمان عدم ثبوتوں کی وجہ سے ضمانتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے، باقی 29 فیصد سیاستدانوں میں سے 5 فیصد بری ہو گئے جبکہ 15 فیصد کے خلاف نیب نے انکوائریاں بند کر دیں۔
سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے خلاف احتساب کے نام پر 100 ہائی پروفائل کیسز پر کارروائی ہوئی جس پر عوام کے دو ارب روپے خرچ کر دیئے گئے لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا، ان کیسز میں نہ کسی کو سزا ہوئی اور نہ ہی حکومت کسی قسم کی ریکوری کر سکی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق قومی احتساب بیورو نے عمران خان کے دور میں 100 ہائی پروفائل شخصیات پر لگ بھگ 900 ارب روپے کی کرپشن کے الزامات لگائے تھے، تاہم نہ کسی بڑے ملزم کو سزا دلوائی جا سکی اور نہ ہی کوئی رقم وصول ہوئی۔ سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپورکے خلاف نیب کیسز میں 24 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، جبکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف نیب کیسز میں اب تک 23 کروڑ روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے خلاف دائر کردہ نیب کیسز میں 12 کروڑ 10 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 4 برس میں نیب کو تمام آپریشنل اخراجات کیلئے 18 ارب روپے دیئے جا چکے ہیں.
سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کی زیر قیادت بنائے گئے ایسٹ ریکوری یونٹ نے کرپشن کے ثبوت ڈھونڈنے کی آڑ میں تین برس میں ٹیکس پئیرز کے 12کروڑ 70 لاکھ روپے اچک لئے لیکن موصوف ایک پائی کی بھی ریکور نہ کر پائے اور اب بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں۔
تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سابق معاون خصوصی شہزاد اکبر اور ان کی ٹیم نے 20 سے زائد غیر ملکی دورے کئے۔ اس دوران وہ فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام کرتے تھے اور سرکاری خرچ پر گلچھڑے اڑاتے تھے لیکن 13 کروڑ روپے کھانے کے باوجود ایک روپیہ بھی ریکور کرنے میں ناکام رہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نیب کی حراست میں عمران کے سیاسی مخالفین کی جیلوں اور عدالتوں میں پیشیوں پر اخراجات کی مد میں 30 کروڑ روپے خرچ کر دیئے گئے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملزمان پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ نیب، جیل انتظامیہ، عدالتوں اور محکمہ پولیس سے حاصل کی گئی معلومات سے لگایا گیا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نیب نے 2018 سے 2021 تک 250 سے زائد موجودہ اور سابق اراکین پارلیمان کے خلاف کیسز کی تحقیقات کیں، چیئرمین نیب نے ان ہائی پروفائل کیسز پر کام کے لئے بیورو ہیڈکوارٹرز میں خصوصی سیل قائم کیا جس میں 12 آفیسرز اور 26 افراد پر مشتمل سپورٹنگ سٹاف کو تعینات کیا گیا۔خصوصی سیل کے افسران اور سپورٹنگ سٹاف کی تنخواہوں کی مد میں 8 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ بیرون ملک سے معلومات حاصل کرنے کے لئے بھی لگ بھگ ایک کروڑ روپیہ خرچ کیا گیا۔ اس دوران نیب، ایف آئی اے اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے 13حکام نے برطانیہ کے 4 دورے معلومات کے حصول کیلئے کیے۔ برطانیہ کے ان 4 دوروں پر ان حکام نے 3کروڑ 40 لاکھ روپے خرچ کیے لیکن نتیجہ صفر نکلا۔
اس دوران انصاف کے دوہرے معیار کے تحت سابق وزیراعظم عمران خان، محمود خان، پرویز خٹک اور آفتاب شیر پاؤ کے خلاف نیب کے کیسز بند کردیئے گئے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا، عامر کیانی، چوہدری شجاعت حسین، پرویز الہیٰ، مونس الہیٰ، زلفی بخاری اور منظور وٹو وغیرہ کے خلاف بھی درج کیسز ختم کردیئے گئے۔ چند دیگر کیسز میں عدم ثبوت کی بنا پر احتساب عدالتوں نے راجہ پرویز اشرف اور قمر الاسلام کو باعزت بری بھی کیا۔
وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت کے دوران ان کے سیاسی مخالفین لمبا عرصہ جیلوں میں قید رہے۔ آصف زرداری نے 9 جون 2019 سے 11 دسمبر 2019 تک جعلی اکائونٹس کیس میں جیل اور نیب کی کسٹڈی میں 70 دن گزارے۔ آصف زرداری کی بہن فریال تالپور 56 روز نیب کی حراست اور 113 دن جیل میں رہیں۔ فریال تالپور کو 17 دسمبر 2019 کو ضمانت پر رہا کیا گیا لیکن دونوں کے خلاف کوئی الزام ثابت نہ ہو پایا۔