عمران کبھی ذوالفقارعلی بھٹو کیوں نہیں بن سکتا؟
ایک آئینی اور جمہوری عمل کے ذریعےاقتدار سے نکالے جانے کے بعد عمران خان نے اپنی بدترین کارکردگی اور ناکامیوں کا ملبہ امریکی سازش پر ڈال کر سیاسی شہید بننے کی جو کوشش کی تھی وہ مکمل طور پر ناکام ہونے جا رہی ہے کیونکہ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی۔ بھٹو اور عمران میں بڑا فرق یہ ہے کہ بھٹو کی شہادت کو چار دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ان کو چاہنے والے عوام نے کبھی ان پر عدم اعتماد نہیں کیا جبکہ عمران پر اسکے اپنے ساتھیوں اور اتحادیوں نے عدم اعتماد کر کے اقتدار سے نکال باہر پھینکا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف لکھاری اور دانشور خالد جاوید جان کہتے ہیں کہ عمران پر اِن دِنوں ذوالفقار علی بھٹو بننے کا جنون سوار ہے، حالانکہ حکومت میں آنے سے پہلے وہ اسی قبیلے میں شامل تھے جو بھٹو شہید کے خلاف وطن دشمنی تک کے الزامات عائد کرتا رہا ہے، لیکن جب سے وہ اپنی نا اہلی اور ہر ادارے سے چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے سیاسی مشکلات کا شکار ہیں، انہیں ذوالفقار علی بھٹو کی یاد بہت ستا رہی ہے۔
وہ اقتدار میں آکر بھٹو شہید کی طرح متفقہ آئین اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام جیسا کوئی بڑا کارنامہ تو کجا، روٹین کی حکومت چلانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ ان کا پونے چار سال کا دور سیاسی انتشار، اقتصادی بدحالی اور انتظامی افراتفری کا دور رہا جس نے پاکستانی معیشت کا جنازہ نکال دیا اور عوام مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گئے۔ اس پورے دور میں حکومت نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہیں آتی تھی ماسوائے اپوزیشن، صحافیوں، کسانوں، وکیلوں، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے۔ لیکن جب عمران اپنے غیر سیاسی رویّوں کی وجہ سے چاروں طرف سے محصور ہوگئے تو انہوں نے خود کو پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی جینئس ذوالفقار علی بھٹو کے ہم پلّہ قرار دیتے ہوئے یہ حیران کن اعلان کر دیا کہ بھٹو کی طرح انہیں بھی امریکی سازش کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا جا رہا ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی پسندیدہ انقلابی نظم ‘میں باغی ہوں، میں باغی ہوں’ کہنے والے خالد جاوید جان یاد دلاتے ہیں کہ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے عمران خان نے ایک نام نہاد سفارتی مراسلے کو جواز بنایا اور یہ دعویٰ کیا کہ فوجی قیادت کی موجودگی میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی غیر ملکی سازش کی تصدیق کی گئی تھی۔ لیکن فوجی ترجمان نے ایک حالیہ پریس کانفرنس میں عمران خان کے ان دعوؤں کی ہوا نکال دی ہے۔ اسی طرح نئی حکومت نے بھی اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کرانے کا حکم دیا ہے۔ لیکن جھوٹ اور فریب کی سیاست کرنے والے عمران خان اپنے بیانیے پر بضد ہیں کہ امریکہ ان کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ وہ حکومت سے نکلنے کے بعد اسی جھوٹ کے سہارے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو ایک خطرناک کھیل ہے کیونکہ اس سے پاکستان نہ صرف خارجہ محاز پر مزید تنہا ہو سکتا ہے بلکہ ملک کے اندر بھی خانہ جنگی کا ماحول بنتا دکھائی دے رہا ہے۔
خالد جاوید جان کہتے ہیں کہ بد قسمتی سے بعض حلقوں اور اداروں نے برسا برس کی محنت سے عمران کا امیج ایک دیوتا کے طور پر بنایا جو کبھی غلطی نہیں کر سکتا اور نہ ہی جھوٹ بول سکتا ہے، لیکن گزشتہ پونے چارسال کی تباہ کن کارکردگی کے بعد یہ دونوں امیج زمین بوس ہوگئے اور ان کے ووٹر ان سے دور ہو گئے جس کا ثبوت پچھلے مہینوں میں دس میں سے نو ضمنی الیکشنز میں پی ٹی آئی کی عبرتناک شکست ہے۔ لیکن ان کا ایسا اندھا فین کلب بھی ہے جس کے بارے میں اوریا مقبول جان نے کہا ہے کہ عمران اگر نعوذ بااللہ نبوت کا دعویٰ بھی کردے تو یہ جنونی کلب اسے قبول کر لے گا۔ خالد جاوید کہتے ہیں کہ جہاں تک عمران کا خود کو بھٹو قرار دینے کا معاملہ ہے تو دونوں میں رتی بھر بھی مماثلت نہیں ہے۔ بھٹو شروع سے خود کو سیاست کیلئے تیار کر رہے تھے۔ جبکہ عمران کا آکسفورڈ میں ایڈمیشن بھی کھیلوں کی بنیاد پر ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1958سے لیکر 1967 تک حکومت میں وزیرِ معدنیات سے لیکر وزیرِ خارجہ تک خدمات سرانجام دیں اور اِس دوران ان کے پاس حکومتی انتظامی امور کا نہ صرف وسیع تجربہ تھا بلکہ وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے وہ پاک چائنہ دوستی کے معمار اور سامراج مخالف سیاسی رہنما اور عالمی دانشور کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انہوں نے 28اپریل 1977کو قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں سفید ہاتھی یعنی امریکہ کو اپنے مخالف ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہاتھی کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے وہ فلسطین، ویتنام، قبرص اور کشمیر کے بارے میں میرے موقف کو ابھی تک نہیں بھولا۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے ایٹمی پروگرام ختم کرنے کی وارننگ دیتے ہوئے جناب بھٹو کو عبرتناک مثال بنانے کی دھمکی دی، انہوں نے اسلامی ممالک کو یکجا کرنے اور تیل کا ہتھیار استعمال کرنےکی حکمت عملی بنائی اور سب سے بڑھ کر افغانستان کی صورتِ حال میں امریکہ کسی حالت میں بھٹو کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
خالد جاوید جان کہتے ہیں کہ اسی لیے امریکہ نے نہ صرف بھٹو کو فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سے نکالا بلکہ انہیں جسمانی طور پر بھی ختم کروا دیا۔ لیکن وہ پھانسی چڑھ کر بھی امر ہو گئےاور ان کی سوچ آج بھی زندہ ہے، لہذا سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان نے پونے چار سال میں وہ کونسا کارنامہ انجام دیا ہے جس کی بنیاد پر امریکہ اسے ہٹانا چاہتا ہے اور وہ بھی خط لکھ کر جب کہ عمران خان کی آزاد خارجہ پالیسی نے چین سے لیکر سعودی عرب تک کو ناراض کر دیا ہے تو امریکہ اسے کیوں ہٹائے گا؟ بقول خالد جاوید، وجہ صاف ظاہر ہے کہ عمران اپنی بدترین کارکردگی کا ملبہ امریکی سازش پر ڈال کر سیاسی شہید بننا چاہتا ہے جو ممکن نہیں ہوگا کیونکہ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی۔ بھٹو شہید اور عمران میں بڑا فرق یہ ہے کہ بھٹو کی موت کے بعد بھی اس کے خلاف عدم اعتماد نہیں ہوا جبکہ عمران کی زندگی میں ہی اس کے اپنے لوگوں نے اس کے خلاف عدم اعتماد کر دیا۔