کرکٹ بورڈ نے بے لگام کھلاڑیوں کو کیسے قابو کیا؟
مرد خواہ ایتھلیٹ ہو، کوئی سیاست دان ہو، جج ہو، صحافی ہو یا وکیل، اس کی لگام ہمیشہ بیوی کے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستانی کرکٹرز کا بھی ہے۔ پاکستانی سٹار کرکٹرز بے پناہ مقبولیت اور اپنی فین فالوونگ کی وجہ سے اکثر کسی کے قابو میں نہیں آتے چنانچہ یہ شعوری فیصلہ کیا گیا تھا کہ انہیں قابو میں کرنے اور ڈسپلن میں لانے کیلئے ان کی بیویوں کی خدمات ہی حاصل کی جائیں۔ غیرملکی دوروں میں بڑے کرکٹرز بعض اوقات ایسے سکینڈلز میں گھر جاتے ہیں جنہیں سنبھالنا کرکت بورڈ کے بس کی بات نہیں ہوتی اور نتیجتاً جگ ہنسائی ہوتی ہے۔
ایک انٹرویو میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین ذکا اشرف نے انکشاف کیا ہے کہ سٹار کرکٹرز کی آف دی فیلڈ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے انہوں نے کھلاڑیوں کی بیگمات کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے کیونکہ بیگمات اتنی تیز نظر رکھتی ہیں کہ کھلاڑی ہمیشہ ڈسپلن میں رہتے ہیں۔ ذکا اشرف کے مطابق 2011 کے آخری دنوں میں اچانک بھارت کے ساتھ ایک مختصر سیریز طے ہوئی اور پاکستانی ٹیم بھارت کے دورے پر روانہ ہوگئی، ٹیم کی روانگی سے قبل ہم پریشان تھے کہ پانچ سال کے بعد اس دورے میں کھلاڑی کسی نامناسب سرگرمی میں ملوث نہ ہو جائیں کیونکہ ماضی میں بھارت کے دوروں میں کئی دفعہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کی خبریں آتی رہی تھیں۔ دوسری طرف بھارت کو سٹے بازوں کی جنت سمجھا جاتا ہے لہٰذا کھلاڑیوں کو ان سے بھی دور رکھنا تھا، لہٰذا تب ہم نے کھلاڑیوں کی بیگمات کو ٹور پر ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کی موجودگی میں کھلاڑی میچ کے بعد بے قابو ہونے کی بجائے فیملی کے قابو میں آ جاتے ہیں۔ ذکا اشرف کہتے ہیں کہ ہمارا یہ تجربہ بہت کامیاب رہا اور کرکٹ بورڈ اب بھی یہی پالیسی لے کر چل رہا ہے۔
پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک کی ٹیموں کو دیکھا جائے تو انگلینڈ اور آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کی بیگمات زیادہ تر دوروں پرساتھ ہوتی ہیں جس سے کھلاڑیوں کی مکمل توجہ کھیل یا فیملی پر ہوتی ہے، بیگمات کے ساتھ ہونے سے کھلاڑیوں کو فیملی سے ہٹ کر کچھ کرنے کا کم ہی موقع ملتا ہے، ماضی میں پاکستان ٹیم کے ساتھ کئی ممالک کے دوروں میں ایسے واقعات سامنے آئے جن سے ٹیم کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا۔سن2010 کا انگلینڈ کا دورہ اس کی ایک مثال ہے جس میں طویل دورہ ہونے کے باعث کھلاڑی آف دی فیلڈ سرگرمیوں میں ملوث ہوئے اورچند ایک کو جیل بھی جانا پڑا،1979 کا بھارت کا دورہ بھی دو ماہ جاری رہا تھا اور ٹیم کے اکثر کھلاڑی بیگمات ساتھ نہ ہونے کے باعث رات گئے تک پارٹیوں میں مصروف رہتے تھے جس سے پاکستان کی مضبوط ٹیم میدان میں کمزور ثابت ہوئی اور پے درپے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
1993 میں ویسٹ انڈیز کا دورہ بھی پاکستان کرکٹ کو داغ لگا گیا جب وسیم اکرم سمیت کچھ کھلاڑی منشیات استعمال کرنے کے الزام میں حوالات پہنچ گئے، 2002 میں انگلینڈ کے دورے میں بھی کچھ کھلاڑی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے۔
2017 میں چیمپئنز ٹرافی کے سکواڈ سے بھی ایک کھلاڑی کو نامناسب سرگرمیوں کے باعث وطن بھیج دیا گیا تھا، 2015 میں ورلڈکپ کے دوران ٹیم منیجر میچ سے ایک رات قبل ایک کیسینو میں پائے گئے جس پر بہت شور مچا تھا، اس سے پہلے 1978 میں انگلینڈ کے ایک دورے میں پاکستان ٹیم کے منیجر کا ہوٹل ویٹریس کے ساتھ نازیبا حرکت کا تنازع سامنےآیا تھا اور انگلش اخبارات نے اس کو بہت اچھالا تھا۔ ماضی کے پاکستان ٹیم کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کے واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو سابق چیئرمین ذکا اشرف کی یہ حکمت عملی درست نظر آتی ہے کہ کھلاڑیوں کی بیگمات دوروں پر ساتھ بھیجی جائیں جو اپنے شوہروں پر سخت نظر رکھیں اور انہیں آف دی فیلڈ سرگرمیوں سے باز رکھ سکیں۔