عمران بار بار چوکیدار کو آئین شکنی کی دعوت کیوں‌دے رہے ہیں؟


معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان بے گھر ہو جانے کے بعد مسلسل چوکیدار سے گھر کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا جو مطالبہ کر رہے ہیں وہ مکمل طور پر غیر آئینی ہے چونکہ آئین کے مطابق چوکیدار کی بنیادی ڈیوٹی گھر کی چار دیواری اور گیٹ سے باہر ہے، اندر نہیں۔ روزنامہ جنگ کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ نیوٹرلز کے بعد اب عمران نیازی نے چوکیدار، چوکیدار کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ وہ لوگوں کو فوج کے خلاف یہ کہہ کر بھڑکا رہے ہیں کہ اگر گھر پر چور قبضہ کرلیں اور چوکیدار تماشہ دیکھتے رہے تو کیا قوم ان سے نہیں پوچھے گی؟

لیکن عمران کی یہ منطق ویسی ہی بے بنیاد اور بے وقوفانہ ہے جیسی انہوں نے نیوٹرلز کی نیوٹریلٹی یا امریکی سازش کے بارے میں اپنائی تھی۔ پتہ نہیں عمران خان نیازی نے کبھی گھر میں چوکیدار رکھے نہیں یا پھر انہوں نے اپنے گھر کے چوکیدار کو مداخلت کا اختیار دیا ہوا ہے جو ایسی غیر منطقی دلیل دیتے ہیں اور ان کے فالورز یا سہولت کار اینکرز اس پر سر دھنتے رہتے ہیں۔ سلیم صافی کہتے ہیں کہ جہاں تک ہم جانتے ہیں چوکیدار کا بنیادی کام یہ ہے کہ گھر کے اندر گھر کے مالک کی مرضی کے بغیر کوئی گھسنے نہ پائے یا پھر باہر سے آ کر کوئی گھر کو نقصان نہ پہنچائے۔ گویا چوکیدار کی بنیادی ڈیوٹی گھر کی چار دیواری اور گیٹ سے باہر ہے۔ گھر کے اندر اگر اسکے مکینوں کا آپس میں تنازعہ ہو جائے تو اس میں چوکیدار کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جاتی۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ گھر کا چوکیدار گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنا اصل کام چھوڑ کر گھر کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے۔لگ گیا تھا اور خود کو نوکر سمجھنے کی بجائے مالک سمجھنے لگا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ عمران خان پہلے سے گھر کا مالک تھا اور اس نے گھر کا چوکیدار لگایا تھا، بلکہ اس نے گھر پر ناجائز قبضے کے لئے چوکیدار کی خدمات حاصل کی تھیں اور چوکیدار کی خوشامد کی تھی۔ اپنے مخالفین کو بوٹ پالش کرنے کے طعنے دینے والے عمران نے تو خود سب سے ذیادہ بوٹ پالش کئے تھے۔ چنانچہ گھر کا چوکیدار گیٹ اور چاردیواری کی بجائے گھر کے اندرونی معاملات میں دخیل ہوگیا۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ چوکیدار نے گھر کے مکین نواز شریف کو گھر سے نکالا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے گھر کے دوسرے مکین یعنی عدلیہ کو بلیک میل کیا۔ چوکیدار نے عمران خان کی خاطر گھر کی خواتین یعنی مریم نواز اور فریال تالپور کو بھی جیلوں میں ڈالا۔ گھر کے ایک اور مکین یعنی چیئرمین نیب کو آڈیو ویڈیوز سکینڈل کے ذریعے بلیک میل کر کے ان سے گھر کے ایک اور سابق مالک شاہد خاقان عباسی اور آصف زرداری کو جیل میں ڈلوایا۔ اسکے بعد گھر کے سب سے شریر بچے کے تمام کیسز کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ عمران خان کی خاطر چوکیدار نے گھر کے ایک اور سٹیک ہولڈر یعنی میڈیا کو تقسیم کیا اور کچھ کو بدنام کیا۔ موصوف نے کچھ کو تو غدار قرار دلوا دیا اور کچھ کی زبان بندی کروا دی۔ پھر چوکیدار نے گھر کے ایک اور اہم مکین چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کو عمران کے لئے روبوٹ میں تبدیل کیا الانکہ وہ دونوں عوام کے ووٹ کے چوکیدار تھے، وہ مگر خود چوری میں شریک ہوگئے۔ چوکیدار نے ان سے 2018 کے الیکشن کے وقت آر ٹی ایس سسٹم فیل کروایا۔ پھر پولنگ اسٹیشنوں کے چوکیداروں یعنی پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالا اور عمران کے حق میں ٹھپے لگوائے۔ پھر چوکیدار نے گھر کے مکین عدلیہ اور میڈیا کے ماتھے پر بندوق رکھ کر منع کیا کہ وہ الیکشن کے دوران ہونے والی چوری کا ذکر نہیں کریں گے۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ لیکن اس سب کے باوجود جب چوکیدار نے دیکھا کہ جبر طور پر گھر کا مالک بنائے گئے عمران نیازی سے ملک نہیں چل رہا تو اسے پریشانی لاحق ہوگئی۔ جب محسوس ہوا کہ نیازی صاحب تو کسی پڑوسی یا دوست کے ساتھ چل نہیں سکتے تو چوکیدار نے ضامن بن کر انکے دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ معاملات درست کرائے۔ لیکن ایک جانب چوکیدار مسئلہ حل کرتے تو دوسری طرف عمران خان نیازی اسے بگاڑ دیتا۔ عمران نیازی نے گھر کی معیشت بھی تباہ کرکے رکھ دی۔ چوکیدار اسے سمجھاتے رہے لیکن وہ باز نہیں آئے۔

انہوں نے گھر کے اپنے ساتھی اور بھائیوں کو بھی ناراض کیا چنانچہ یوسف رضا گیلانی کے سینیٹر بننے کی صورت میں عملا ان پر عدم اعتماد ہوگیا۔ گھر کا بالجبر بنایا ہوا مالک عمران نیازی ایک بار پھر چوکیدار کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ وہ ان کے گھر کے مکینوں کو درست کرالیں۔ چنانچہ چوکیدار نے کسی کو کنٹینر میں بند کیا، کسی کو باتھ روم میں اور کسی کو سیف ہائوس میں۔
یوں صبح عمران نیازی کے حق میں ان سے جبری ووٹ ڈلوا دیا گے۔ عمران کو بندوق کے زور پر گھر کا مالک بنانے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے عمرانڈوذ اور یوتھیوں کے علاوہ سارا ملک چوکیدار کے خلاف ہوگیا، مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، اسفند یارولی، اختر مینگل، آصف زرداری یا نواز شریف ہوں، یا کوئی اور سب کی توپوں کا رخ چوکیدار کی طرف رہا۔وہ معیشت کی تباہی اور سفارتی رسوائی کے لئے چوکیدار کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔ میڈیا میں بھی ان کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ بیرونی دنیا میں بھی چوکیدار پر تنقید ہونے لگی۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ ان حالات میں چوکیدار تائب ہو گیا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ اب صرف گھر کی چوکیداری کریں گا اور گھر کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ اب ظاہر ہے کہ عمران خان تو چوکیدار کی غیر قانونی مدد اور عسکری بیساکھیوں کی وجہ سے گھر کے مالک بنے تھے لہٰذا جب مایوس محافظوں نے خود کو چوکیداری تک محدود کرلیا تو خان گھر پر ناجائز قبضہ برقرار نہ رکھ سکا۔ اگرچہ گھر کے بیشتر علاقوں یعنی پنجاب، پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان پر بدستور چوکیدار کا دلوایا ہوا ان کا ناجائز قبضہ قائم ہے لیکن گھر کا مرکزی حصہ شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کے قبضے میں آ چکا ہے۔ تب سے عمران کبھی چوکیدار کو للکارتے ہیں، کبھی ان کا منت ترلہ کرتے ہیں، کبھی ان سے خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں، کبھی انہیں بلیک میل کراتے ہیں، کبھی زلمے خلیل زاد سے سفارشیں کرواتے ہیں اور کبھی عوام کو ان کے خلاف ورغلاتے ہیں۔ ان کا چوکیدار سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ چوکیداری کی بجائے گھر کے اندر گھس کر شہباز شریف وغیرہ کو نکال دے اور دوبارہ گھر کا ناجائز قبضہ دلوا دے، جبکہ چوکیدار ماضی کے اس تجربے کی وجہ سے اپنی اصل ڈیوٹی کرنے پر مصر ہے۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ اب یا تو عمران خان چوکیدار کی تعریف کو نہیں سمجھتے اور یا اقتدار سے محرومی کے بعد اس قدر حواس باختہ ہوگئے ہیں کہ چوکیدار سے ناجائز مطالبات کر رہے ہیں۔ بظاہر تو یہ نعرہ بڑا دلکش ہے کہ چوکیدار نے فلاں چور کو کیوں نہیں روکا اور قوم ان سے پوچھے گی لیکن حقیقت میں یہ مطالبہ آئین سے بغاوت ہے۔ کیونکہ آئین میں چوکیدار کا یہ کردار کہیں نہیں لکھا کہ وہ گھر کے اندر حکومت وقت کی طرف سے طلب کیے بغیر کوئی مداخلت کرے۔

Back to top button