غلطی تسلیم ہوگئی، نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ کیس میں تسلیم کیا گیا کہ غلطی ہوگئی نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں، تاحیات نااہلی صادق اور امین کے اصول پر پورا نہ اترنے پر ہوتی ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما وسابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے جنوری میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نااہلی کے خلاف درخواست مسترد کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سابق سینیٹر کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں اس لیے نااہلی کا فیصلہ نہیں دے سکتا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیس میں تسلیم کیا گیا کہ غلطی ہوگئی نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں، تاحیات نااہلی صادق اور امین کے اصول پر پورا نہ اترنے پر ہوتی ہے، اثاثے چھپانے یا غلطی کرنے پر آرٹیکل 63 ون سی کے تحت نااہلی ایک مدت تک ہوتی ہے۔

بینچ کے رکن جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جب سفارت خانے جا کر شہریت منسوخ نہیں کروائی تو نادرا نے سرٹیفیکیٹ کیسے دے دیا؟ جس پر وکیل فیصل واڈا نے بتایا کہ ان کے مؤکل نے امریکی سفارت خانے جاکر نائیکوپ منسوخ کرایا تھا، فیصل واڈا نے حقائق چھپائے نہ کوئی بدیانتی کی۔

ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فیصل واڈا کا سارا جھگڑا سینیٹ کی نشست کا ہے، وکیل وسیم سجاد نے تفصیلات عدالت کو بتاتے ہوئے کہا کہ ‏فیصل واڈا نے کاغذات نامزدگی 7 جون 2018 کو جمع کرائے جن پر 18 جون کو اسکروٹنی ہوئی۔

بینچ کے رکن ‏جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ فیصل واڈا نے دوہری شہریت چھوڑنے کا بیان حلفی کب جمع کرایا تھا؟ ‏وکیل نے بتایا کہ فیصل واڈا نے بیان حلفی 11 جون 2018 کو جمع کرایا، ریٹرننگ افسر کو بتا دیا تھا کہ امریکی شہریت چھوڑ دی ہے۔

‏بینچ کی رکن جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ انہوں نے کس تاریخ کو امریکی سفارت خانے میں جا کر شہریت منسوخ کرائی؟ ‏جس پر وکیل نے کہا کہ امریکی سفارت خانے جا کر کہہ دیا تھا کہ شہریت چھوڑ رہا ہوں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا آپ نے سفارت خانے جا کر زبانی بتا دیا کہ میرا پاسپورٹ کینسل کر دو؟ ‏وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ امریکی شہریت چھوڑنے کا ثبوت میں نے تو نہیں دینا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ بیان حلفی 11 جون کو جمع کرانے سے پہلے زحمت ہی نہیں کی کہ دوہری شہریت کا معاملہ ختم کریں؟ ‏وکیل نے مزید کہا کہ نادرا نے فیصل واڈا کو 29 مئی 2018 کو امریکی شہریت کینسل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ بیان حلفی جمع کراتے وقت فیصل واڈا کا امریکی پاسپورٹ منسوخ نہیں ہوا تھا۔

بینچ کے سربراہ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا ڈیکلریشن عدالت ہی دے سکتی ہے، شواہد کا جائزہ لیے بغیر کسی کو بددیانت یا بے ایمان نہیں کہا جا سکتا، عدالتی ڈیکلریشن کا مطلب ہے شواہد ریکارڈ کیے جائیں، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق کا معیار مقرر کر چکی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل واوڈا نے امریکی شہریت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چھوڑی ہے، وکیل فیصل واوڈا نے دوہری شہریت پر تاحیات نااہلی ختم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ دوہری شہریت پر آرٹیکل 63 ون سی کا آ اطلاق ہوتا ہے، دوہری شہریت پر رکن صرف ڈی سیٹ ہوتا ہے تاحیات نااہل نہیں۔

جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے فیصل واوڈا کے وکیل کو الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے متعلق مزید تیاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 13 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ ای سی پی نے فیصل واڈا کے خلاف دوہری شہریت پر نااہلی کی درخواستوں پر فیصلہ 23 دسمبر 2021 کو محفوظ کیا تھا۔محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ف) کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا تھا جبکہ انہیں بطور رکن قومی اسمبلی حاصل کی گئی تنخواہ اور مراعات دو ماہ میں واپس کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ای سی پی نے فیصل واڈا کے بطور سینیٹر منتخب ہونے کا نوٹی فکیشن بھی واپس لے لیا تھا جبکہ ان کی جانب سے بحیثیت رکن قومی اسمبلی، سینیٹ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹ کو بھی ‘غلط’ قرار دیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا پر الزام تھا کہ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑتے ہوئے اپنی دوہری شہریت کو چھپایا تھا۔ فیصل واڈا نااہلی کیس 22 ماہ سے زائد عرصے تک زیر سماعت رہا، مذکورہ کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی کیس پر سماعت ہوئی۔فیصل واڈا کی دوہری شہریت کے خلاف قادر مندوخیل کی جانب سے 2018 میں درخواست دائر کی گئی تھی۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ جس وقت فیصل واڈا نے قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اس وقت وہ دوہری شہریت کے حامل اور امریکی شہری تھے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیصل واڈا نے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن میں ایک بیانِ حلفی دائر کیا تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے شہری نہیں ہے۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ چونکہ انہوں نے جھوٹا بیانِ حلفی جمع کرایا تھا اس لیے آئین کی دفعہ 62 (1) (ف) کے تحت وہ نااہل ہیں۔درخواست کی سماعت کے دوران سابق وزیر کے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصل واڈا نے کوئی جھوٹ نہیں بولا، کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل انہوں نے اپنا غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا۔سماعت کے دوران فیصل واڈا کے وکیل بیرسٹر معید نے ان کا پیدائشی سرٹیفکیٹ کمیشن میں جمع کروایا اور بتایا تھا کہ فیصل واڈا امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے تھے اور پیدائشی طور پر امریکی شہری تھے۔

Back to top button