وہ کون تھا؟
تحریر:جاوید چوہدری
بشکریہ:روزنامہ ایکسپر یس
حیدر عباس پی ایس او میں ملازم تھے‘ راولپنڈی سیٹلائیٹ ٹاؤن میں رہتے تھے اور امیر اور بااثر لوگوں کے دوست تھے لیکن پھران کے ہاں ایک اسپیشل بچہ پیدا ہوگیا اور یہ1981میں امریکا چلے گئے‘ ان کا کل اثاثہ 4600 ڈالرز تھے۔
یہ نیویارک شہر پہنچے اور نوکری کی تلاش شروع کر دی‘ یہ روز صبح نوکری کی تلاش میں نکلتے تھے اور شام کو ناکام واپس آ جاتے تھے یوں 4600 ڈالرز میں سے 2400 خرچ ہو گئے‘صرف 2200 بچ گئے‘ حیدر عباس نے فیصلہ کیا میں مزید چند دن دیکھوں گا اگر نوکری مل گئی تو ٹھیک ورنہ پاکستان واپس چلا جاؤں گا۔
یہ اس فیصلے کے بعد ایک شام ٹرین سے گھر واپس جا رہے تھے‘ راستے میں کسی اسٹیشن سے ایک دیسی شخص ٹرین پر سوار ہوا‘ سیدھا ان کی طرف آیا اور سلام کر کے ساتھ کھڑا ہوگیا‘حیدر صاحب نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ پاکستانی ہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’نہیں میں انڈیا سے ہوں‘‘ حیدر عباس نے مایوسی سے سر ہلایا اور خاموش کھڑے ہو گئے۔
وہ شخص تھوڑی دیر انھیں دیکھتا رہا اور پھر مسکرا کر بولا ’’پاکستانی اور انڈین سے کیا فرق پڑتا ہے‘ تم اپنا ایشو بتاؤ‘‘ حیدر عباس کا جواب تھا ’’میں پاکستانی ہوں اور نوکری تلاش کر رہا ہوں‘‘ وہ شخص مسکرایا‘ اس نے جیب سے کاغذ نکالا‘ اس پر نمبر لکھا‘ اسے پکڑایا اور کہا’’ کسی دن میرے پاس آ جاؤ‘ مسئلہ حل ہوجائے گا‘‘۔
حیدر عباس حیرت سے کاغذ دیکھنے لگا‘ اس دوران ٹرین رکی اور وہ شخص اتر کر ہجوم میں گم ہو گیا‘ حیدر عباس نے چند دن بعد اسے فون کیا‘ اس نے اسے ایڈریس لکھوایا اور گھر بلا لیا‘ وہ گھر میں اکیلا رہتا تھا‘ مقبوضہ کشمیر سے تعلق تھا‘ اس نے حیدر کو مشورہ دیا آپ ملازمت تلاش نہ کرو‘ بزنس تلاش کرو‘ حیدر صاحب نے بزنس تلاش کرنا شروع کر دیا اور چند دن بعد انھیں ایک اسٹور مل گیا‘ 35 ہزار ڈالرز میں سودا ہوگیا۔
حیدر صاحب نے غلام نبی کو فون کیا‘ غلام نبی نے انھیں گھر بلا لیا‘ یہ اگلے دن اس کے گھر پہنچ گئے‘ وہ بڑی محبت سے ملا‘ چائے پلائی اور جاتے وقت ایک لفافہ ان کے ہاتھ میں دے دیا‘ اس میں 35 ہزار ڈالرز تھے‘ اس کا کہنا تھا‘ تم یہ رقم مالک کو دے دو اور اسٹور کی ملکیت لے لو‘ میں اگلا مشورہ تمہیں اس کے بعد دوں گا۔
حیدر صاحب اگلے دن اسٹور کے مالک کے پاس گئے اور اسٹور کی ٹرانسفر شروع ہو گئی‘ حیدر صاحب نے غلام نبی کو فون کیا اور اسے بتایا‘ ٹرانسفر پیپرز تیار ہیں‘ آپ آ کر دستخط کر دیں‘ انڈین کا جواب تھا‘ میں مصروف ہوں آپ میری جگہ دستخط کر دو‘ بہر حال قصہ مختصر دستخط بھی ہو گئے اور اسٹور بھی مل گیا‘ حیدر صاحب اس کے بعد اسے جب بھی فون کرتے تھے اس کا جواب ہوتا تھا آپ یہ اسٹور چلاؤ‘ میں کسی دن چکر لگاؤں گا اور یہ پھر غائب ہو گیا‘ حیدر صاحب اسٹور چلانے لگے‘ سیل بڑھ گئی‘ اسٹور کام یاب ہو گیا۔
آٹھ ماہ بعد اسٹور کا اچھا گاہک مل گیا‘ سودا ہوا اور اسٹور72 ہزار ڈالرز میں بک گیا‘ حیدر صاحب نے اس کو فون کیا‘ وہ اس دن فون پر مل گیا‘ اس کا کہنا تھا تم یہ رقم گھر لے جاؤ‘ میں کسی دن آ کر لے جاؤں گا‘ حیدر صاحب 72 ہزار ڈالرز بیڈ کے نیچے رکھ کر اس کا انتظار کرتے رہے‘ وہ ایک رات اچانک آگیا اور حیدر صاحب نے 72 ہزار ڈالرز اس کے سامنے رکھ دیے‘ اس شخص نے کافی پی‘ رقم میں سے اپنے 35 ہزار ڈالرز اٹھائے‘ باقی حیدر عباس کے حوالے کیے‘ انھیں تھپکی دی اور وہاں سے چلا گیا۔
حیدر عباس نے اس کے بعد جب بھی اس کے نمبر پر فون کیا‘ وہ فون کسی نے نہیں اٹھایا‘ وہ اس کے ایڈریس پر گئے لیکن وہاں اس نام کا کوئی شخص نہیں رہتا تھا‘ غلام نبی اس کے بعد انھیں کبھی نہیں ملا‘ وہ کہاں سے آیا تھا اور اس نے ان کی کیوں مدد کی تھی؟ یہ سوالات آج تک حیدر عباس کو پریشان کرتے رہتے ہیں تاہم اس سودے سے بچنے والے 37 ہزار ڈالرز نے حیدر عباس کی زندگی بدل کر رکھ دی‘ یہ ان سے 9 اسٹورز اور دو ریستورانوں کے مالک بن گئے۔
مجھے اس سے ملتا جلتا واقعہ چند دن قبل ملک ریاض صاحب نے بھی سنایا‘ ان کا کہنا تھا‘ میں ایک بار راولپنڈی کے مال روڈ سے گزر رہا تھا‘ گاڑی چلا رہا تھا‘ مجھے اچانک ایک فون آیا‘ میں نے فون سنا تو دوسری طرف سے کوئی درمیانی عمر کا شخص بول رہا تھا‘ اس کا کہنا تھا اڈیالہ روڈ پر ایک چھوٹا سا مدرسہ ہے‘ کوئی مخیر شخص مدرسے کے بچوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرتا تھا‘ وہ فوت ہو گیا ہے‘ مدرسے کے بچے اب 3 دن سے بھوکے ہیں‘ کیا آپ ان کے کھانے پینے کا بندوبست کر سکتے ہیں۔
ملک صاحب کے بقول میں نے اس سے ایڈریس لیا‘ اپنے دفتر فون کیا اور اپنے عملے سے کہا‘ تم لوگ فوری طور پر راشن لو‘ اس ایڈریس پر جاؤ‘ راشن دو اور اس کے بعد بتاؤ کیا واقعی وہاں مدرسہ موجود ہے‘ کیا وہاں بچے پڑھتے ہیں اور کیا وہ واقعی تین دن سے بھوکے ہیں؟ میرے لوگ گئے اور تھوڑی دیر بعد تصدیق کا فون آ گیا‘ وہ بات سو فیصد ٹھیک تھی‘ وہاں مدرسہ بھی تھا‘ بچے بھی تھے اور وہ واقعی تین دن سے بھوکے بھی تھے‘ میرے لوگوں نے فوری طور پر انھیں راشن دیا‘ کھانا پکا اور بچوں نے کھا کر شکرانے کے نفل ادا کیے۔
میں نے اس کے بعد شکریہ ادا کرنے کے لیے اس نمبر پر فون کیا تو دوسری طرف سے جواب دیا گیا‘ ہم نے آپ کو کوئی فون نہیں کیا تھا‘ میں نے فون کی تفصیل نکلوائی‘ یہ اسکیم تھری کا فون تھا اور وہاں سے واقعی کسی نے مجھے فون نہیں کیا تھا‘ میں آج تک اس شخص کو تلاش کر رہا ہوں لیکن وہ مجھے نہیں ملا‘ میں نے ملک صاحب سے پوچھا ’’اور اس مدرسے کا کیا بنا؟‘‘ یہ ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھ کر بولے ’’وہ مدرسہ آج تک ہم چلا رہے ہیں‘‘۔
یہ صرف دو واقعات نہیں ہیں‘ آپ بھی اگر کسی دن بیٹھ کر اپنے بارے میں سوچیں گے تو آپ کے حافظے میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ضرور بیٹھا ہو گا جو اچانک کسی طرف سے آیا ہو گا‘ اس نے آپ کو ہدایت کے راستے پر ڈالا ہوگا اور وہ اس کے بعد غائب ہو گیا ہو گا‘ آپ سوچیں‘ غور کریں اور آپ کو جب وہ شخص مل جائے تو میں پھر آپ کو ایک اور باریک نقطہ سمجھاؤں گا‘ میرا دعویٰ ہے آپ کو وہ ہمدرد شخص سفر کے دوران ملا ہو گا‘ آپ کہیں جا رہے ہوں گے‘ راستے میں آپ کو کوئی شخص ملا ہو گا اور آپ کی زندگی کا سارا دھارا بدل گیا ہو گا۔
سفر اور تجارت دوایسے راستے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے بے تحاشا برکت رکھی ہوئی ہے‘ شاید یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ کے تمام نبی سیاح بھی تھے اور تاجر بھی‘ میرے پاس پرسنل سیشن کے لیے جتنے بھی لوگ آتے ہیں‘ میں ان کے ایشوز سن کر انھیں صرف ایک مشورہ دیتا ہوں‘ آپ اپنا مسئلہ اپنے دماغ میں لوڈ کریں اور سفر پر روانہ ہو جائیں‘ آپ کو راستے میں ان شاء اللہ اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور مل جائے گا۔
آپ یقین کریں مجھے ان کا فون آتا ہے اور یہ میراشکریہ ادا کرتے ہیں‘ سفر کے معاملے میں یہ ضروری نہیں آپ کسی دوسرے ملک کا سفر کریں‘ آپ ملک کے اندر بھی سفر کر سکتے ہیں‘ آپ کسی دوسرے شہر یا گاؤں چلے جائیں اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو آپ اپنے شہر کے اندر ہی چکر لگالیں‘ آپ کو اپنے مسئلے کا حل مل جائے گا۔
دوسرا میں ہر شخص سے عرض کرتا ہوں آپ کاروبار کرو اور اس کاروبار میں اللہ تعالیٰ کو دس فیصد کا حصہ دار بنا لو‘ تمہارا معاشی مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور باقی تمام مسائل بھی ختم ہو جائیں گے‘ آپ اب پوچھ سکتے ہیں معاشی مسائل کا باقی مسائل سے کیا تعلق ہے؟ بات سیدھی ہے‘ دنیا کے ہر شخص کو 12 قسم کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے‘ ان 12 مسئلوں میں ایک مسئلہ معاشی بھی ہے لیکن یہ مسئلہ باقی 11 مسائل کی ماں ہے۔
آپ اگر معاشی لحاظ سے مضبوط ہیں تو پھر باقی گیارہ مسائل کی شدت کم ہو جائے گی اور آپ اگر معاشی لحاظ سے کم زور ہیں تو پھرباقی گیارہ مسائل آپ کا فالودہ نکال دیں گے چناں چہ آپ اگر اپنے آپ کو معاشی لحاظ سے مضبوط کر لیں تو آپ کے باقی گیارہ مسئلے بھی حل ہو جائیں گے اور معاشی مسائل کے حل کے آئیڈیاز بھی انسان کو سفر کے دوران ملتے ہیں۔
آپ نیکی کرنا چاہتے ہیں یا ملازمت اور بزنس کرنا چاہتے ہیں یا سمجھ دار اور وفادار دوست تلاش کر رہے ہیں تو آپ صرف سفر کریں‘ آپ کو آپ کی مرضی کا شخص ضرور مل جائے گا‘ کیوں؟ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہرکارے آپ کے دائیں بائیں چھوڑ رکھے ہیں اور یہ آپ کو صرف چلتے چلتے ملتے ہیں اور آپ کو آپ کے راستے پر چھوڑ کر آگے نکل جاتے ہیں اور آپ باقی زندگی یہ سوچتے رہتے ہیں ’’وہ کون تھا‘وہ کہاں سے آیا تھا اور وہ مجھے غلام نبی کی طرح اس راستے پر چھوڑ کر کہاں چلا گیا؟‘‘۔