پیپلز پارٹی نے اعتزاز اور کھوسہ کو راضی کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

ملک میں عام اتخابات سے قبل پیپلز پارٹی نے اپنی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی لاتے ہوئے پارٹی کے ناراض رہنماؤں کو راضی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی قیادت نے پارٹی پر تنقید کے نشتر چلانے والے رہنماؤں کو 14 ستمبر کو لاہور میں ہونے والے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔

خیال رہے کہ ماضی قریب میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی قربت اور حمایت کرنے پر پیپلزپارٹی کے 2 مرکزی رہنماؤں سردار لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن سے پارٹی کا اختلاف رہا ہے۔ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر بیان بازی کرنے اور عمران خان کی کھل کر حمایت کرنے پر پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت کی طرف سے نہ صرف ان پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے بلکہ ایک موقع پر وال آف شیم بنا کر اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ کی تصاویر بھی اس پر آویزاں کی جا چکی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنماؤں کی جانب سے انھیں پارٹی سے نکالنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے تاہم اب پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کی جاب سے پالیسی میں تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ عمرانڈو قرار پانے والے اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ کو پارٹی سے نکالنا تو کجا دونوں رہنماؤں کو پارٹی کے گزشتہ سی ای سی اجلاس میں بھی مدعو کیا گیا تھا، اعتزاز احسن اس اجلاس میں شریک ہوئے تھے جبکہ سردار لطیف کھوسہ نے شرکت سے گریز کیا تھا۔اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن کو 14 ستمبر کو ہونے والے سی ای سی اجلاس میں بھی مدعو کیا گیا ہے تاہم یہ ان پر منخصر ہے کہ وہ اجلاس میں شریک ہوتے ہیں یا نہیں۔

واضح رہےکہ لطیف کھوسہ کو چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں بیان دینے پر شوکاز نوٹس بھی جاری کیا جاچکا ہے لیکن پارٹی رہنماؤں نے بتایا کہ لطیف کھوسہ اب بھی سی ای سی کے رکن ہیں۔اجلاس میں انہیں مدعو ضرور کیا گیا ہے لیکن بظاہر اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ لطیف کھوسہ اجلاس میں شرکت کریں گے، ان کے بیٹے خرم کھوسہ  نے بتایا کہ ہمیں دعوت نامہ موصول ہوا ہے لیکن ہم اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے کیونکہ ہم عدالتی کیسز میں مصروف ہوں گے۔خرم کھوسہ نے مزید کہا کہ ہم پیشہ ور وکیل ہیں اور ہماری ترجیح ہمارے کیسز ہیں۔

تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ اعتزاز احسن اجلاس میں شرکت کریں گے یا نہیں، تاہم انہوں نے 25 اگست کو ہونے والے پارٹی کے گزشتہ سی ای سی اجلاس میں شرکت کی تھی۔پیپلزپارٹی کے ایک رہنما کے مطابق اعتزاز احسن گزشتہ اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کرنا چاہتے تھے لیکن پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اصرار کیا کہ اگر وہ اجلاس میں شرکت کرنا چاہتے ہیں تو ذاتی طور پر شرکت کریں۔

پیپلز پارٹی ذرائع کے مطابق پارٹی کے سی ای سی اجلاس میں مجموعی سیاسی صورتحال اور اگلے عام انتخابات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پی ڈی ایم اتحاد میں شامل اتحادی الگ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے انتخابات کی تیاریوں کے لیے کمر کستے ہی بظاہر راہیں جدا کر لی ہیں، دریں اثنا سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ وہ 21 اکتوبر کو وطن واپس آجائیں گے، ان کے اس اعلان سے پیپلزپارٹی کے سی ای سی اجلاس کے انعقاد کا وقت مزید دلچسپ ہوگیا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے بھی بالواسطہ طور پر نواز شریف کو غیرضروری رعایتیں ملنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ صرف ایک شخص کے لیے تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دیا جا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اندرونی اختلافات کا بھی شکار ہے کیونکہ بلاول بھٹو زرداری الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر اپنے والد کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے نظر نہیں آرہے۔ایک حالیہ تبصرے میں بلاول بھٹو زرداری نے اس بات کی تصدیق کی کہ اختلاف رائے موجود ہے اور وہ اس حوالے سے سی ای سی اجلاس میں مصالحت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ اس اجلاس کی صدارت بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد آصف علی زرداری نے کی تھی، اجلاس میں قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا گیا تھا۔تاہم آصف زرداری بظاہر پارٹی کی لائن کے خلاف چلے گئے اور اجلاس کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں الیکشن کے اس نکتہ نظر کی حمایت کی گئی کہ انتخابات نئی ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کی بنیاد پر حلقہ بندیاں مکمل ہونے کے بعد کرائے جائیں۔تاہم 9 ستمبر کو بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد کے اس بیان کو اعلانیہ طور پر مسترد کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ جس کسی کو بھی پارٹی پالیسی پر اعتراض ہے اسے متعلقہ فورم پر اٹھانا چاہیے، چند روز میں لاہور میں سی ای سی کا اجلاس منعقد ہونا ہے، اگر کسی کی یہ رائے ہے تو اسے وہاں شیئر کرے۔

خیال رہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ آصف زرداری اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں، تاہم پارٹی ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ پارٹی اجلاسوں میں بھی ان دونوں کے درمیان اختلاف دیکھا گیا تھا۔

Back to top button