جسٹس بندیال کا فیصلہ عمران کی منجی کیسے ٹھوکے گا؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے کیریئر کے آخری روز عمرانداری کی روایت برقرار رکھتے ہوئےاپنا آخری فیصلہ سناتے ہوئے اتحادی حکومت کی جانب سے قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے قانون میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے بقول چیف جسٹس بندیال یہ فیصلہ شہباز شریف کے خلاف نہیں بلکہ عمران خان کے خلاف دے کر گئے ہیں۔ باقی لوگوں نے تو نیب میں اپنا وقت کاٹ لیا ہے مگر اب نیب کا سامنا کرنے کی باری عمران خان کی ہے۔ یعنی جسٹس بندیال کا فیصلہ اب عمران خان کی منجی ٹھوکنے والا ہے۔
مبصرین کے مطابق سپریم کورٹ کے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلہ سے جہاں دیگر سیاستدانوں کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی وہیں نیب ترامیم کو چیلنج کرنیوالے درخواست گزار چیئرمین پی ٹی آئی خود اس فیصلے کی زد میں آسکتے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے جس وقت نئی نیب ترامیم کو چیلنج کیا اس وقت حالات کچھ اور تھے، بعد میں جب نیب میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر القادر ٹرسٹ کی انوسٹی گیشن کا آغاز ہوا تو چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے دفاع میں موقف اپنایا کہ القادر ٹرسٹ کا فیصلہ کابینہ کا تھا اور نئی نیب ترامیم کے تحت کابینہ کے فیصلوں کو تحفظ حاصل ہے۔ تاہم اب سپریم کورٹ نے تمام نیب ترامیم معطل کر دی ہیں جس کا خمیازہ اب عمران خان بھی بھگتے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نیب قوانین کی بحالی کے بعدغیر سیاسی قوتیں مزید مضبوط ہوجائیں گی،سیاسی جماعتوں کو بنانے میں اور توڑنے میں نیب کا کردار رہا ہے.اب تحریک انصاف،خاص طور پر عمران خان کے خلاف نیب زیادہ متحرک نظر آئے گا، پی ٹی آئی والو ں نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری ہے ان کو کافی نقصان ہوگا۔
خیال رہے کہ جمعے کو سنایا گیا یہ فیصلہ پانچ ستمبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔ آخری سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’شارٹ اینڈ سویٹ‘ فیصلہ دیں گے۔ کیس کی سماعت کے لیے 15 جولائی 2022 کو تین رکنی خصوصی بینچ قائم کیا گیا تھا جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔ دو ایک اکثریت سے سنائے گئے اس فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ شامل ہے۔
سیاسی مبصرین اور قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ نیب ترامیم سے جن اہم سیاسی شخصیات کا فائدہ پہنچا تھا، اب ان کے خلاف مقدمات دوبارہ کُھل سکتے ہیں۔ ان شخصیات میں سابق صدر آصف زرداری، سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی، نواز شریف، شہباز شریف، راجہ پرویز اشرف، سابق رکن قومی اسمبلی فرزانہ راجہ اور سابق وزیراعلٰی حمزہ شہباز سمیت کئی نمایاں سیاسی رہنما شامل ہیں۔
نیب قانون ترامیم کے بعد نیب کی جانب سے 137 صفحات پر مبنی ایک فہرست جاری کی گئی تھی جس میں ان تمام شخصیات کا ذکر تھا جنہیں ترامیم سے ریلیف ملا تھا۔ اس فہرست میں سیاست دانوں ، کاروباری شخصیات کے علاوہ کئی سابق سول اور ملٹری بیوروکریسی سے وابستہ افراد کے نام بھی شامل ہیں۔
تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی تعیناتی کے بعد نظرثانی کی اپیل کرنے پر یہ فیصلہ معطل ہو سکتا ہے؟ بعض قانونی ماہرین کے مطابق چونکہ یہ فیصلہ دو ایک سے سنایا گیا ہے یہ فیصلہ پہلی سماعت پر ہی معطل ہو جائے گا تاہم دوسری جانب سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ‘مجھے نہیں لگتا کہ یہ فیصلہ تبدیل ہو گا۔ یہ برقرار رہے گا۔ سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ خود کو عدالتوں میں سرخرو کریں۔‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اب ان تمام افراد کے خلاف مقدمات دوبارہ کھلیں گے جن کو نیب ترامیم کے بعد سہولت ملی تھی۔ ان تمام مقدمات کی فہرست بھی آ چکی ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ عمران خان بھی اس کی زد میں آئیں گے۔ اب پھر نیب 16 دن کے بجائے 90 دن کا ریمانڈ لے گا۔‘