18ویں آئینی ترمیم نے صوبوں کو ولن کیسے بنایا؟
ملک میں عام انتخابات کے انعقاد سے قبل ایک بار پھر آئین میں تبدیلی کی بازگشت زوروں پر ہے، پیپلز پارٹی کی جانب سے نون لیگ پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ کہ مسلم لیگ نون اقتدار میں آنے کے بعد 18ویں آئینی ترمین کو ختم کر کے صوبوں کے حقوق غصب کرنے کا پلان بنا چکی ہے جبکہ لیگی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ ن پر 18ویں ترمیم ختم کرنے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ نون لیگ 18ویں ترمیم کو ختم کرنے کی بجائے اس میں مزید تبدیلی کر کے اسے مربوط بنانے کی خواہاں ہے مبصرین کے مطابق 18ویں آئینی ترمیم سے وفاق سے تمام اختیارات اور وسائل تو صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں تاہم وہ عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ آئینی ترمیم سے پہلے وفاق ولن تھا تاہم اب صوبے ولن بن چکے ہیں عوام کو ان کے حقوق دلانے کیلئے 18ترمیم کو رول بیک کرنے کی بجائے اس میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ سابق صدرآصف علی زرداری نے 2008 میں اقتدار میں آنے کے بعد صدارتی اختیارات ختم کر کے ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کواختیارات منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کے بعد اپریل 2010 میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی سمیت دیگر جماعتوں نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کر دیے اور وزیراعظم کو بااختیار کردیا۔18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو بھی اختیارات منتقل کر دیے گئے تھے، تاہم اب یہ خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں کہ مسلم لیگ ن نے 18ویں ترمیم میں مزید ترامیم کرنے جا رہی ہے، لیکن واضح نہیں ہو رہا کہ 18ویں ترمیم میں مزید کیا ترامیم کی جائیں گی؟
مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے سے متعلق کہنا ہے کہ ن لیگ کوئی ترمیم نہیں کرنے جا رہی، اس خبر میں بالکل کوئی صداقت نہیں ہے۔ترامیم سے متعلق میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں مکمل بے بنیاد ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ مسلم لیگ ن نے 18 ویں ترمیم کو ووٹ دیا تھا، اس کو ختم کرنے کے لیے ہمارے زیر غور کوئی تجویز نہیں ہے، یہ خبربدنیتی کی بنیاد پر شائع کی گئی ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ ہماری منشور کمیٹی ابھی ابتدائی مشاورت کر رہی ہے لیکن ہم نے 18ویں ترمیم سے متعلق کسی سفارش کو حتمی شکل دی ہے نہ کوئی ایسی تجویز آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس قومی سطح پراسمبلی ہے، صوبائی اسمبلیاں ہیں لیکن بلدیاتی نظام صحیح نہیں ہے، 18 ویں ترمیم کے ذریعے ہم نے قومی اسمبلی سے اختیارات صوبائی اسمبلی کو منتقل کیے لیکن وہ عوام تک منتقل نہیں ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل کریں اورانہیں مکمل با اختیار بنائیں۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے مسلم لیگ ن کی جانب سے 18ویں ترمیم کو ختم کرنے سے متعلق سوال پرکہا کہ پیپلز پارٹی کو پہلے سے ہی 18ویں ترمیم پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے پر تحفظات ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جب میثاق جمہوریت ہوا تھا تواس میں بہت ساری باتیں طے ہوئی تھیں جن کے تحت ہم نے 18ویں ترمیم کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اگرعوامی مفاد میں کوئی ترمیم کرنا چاہتی ہے تو بتائے ہم سب ساتھ مل کرآئین میں ترمیم کریں گے، اگر ن لیگ 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی بات کرتی ہے توایسا کرنا آسان نہیں کیوں کہ یہ 2 تہائی اکثریت سے منظورہوئی تھی۔ ایسا کیا گیا تو چھوٹے صوبوں میں بے چینی بڑھے گی۔
تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا 18ویں ترمیم سے عوام کو کوئی فائدہ ہوا ہے؟ اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم سے قبل وفاق عوام کے لیے ولن تھا اور اب صوبے ولن بن گئے ہیں۔ 18ویں ترمیم سے صوبوں کو ان کے حقوق ملے تھے اس سے صوبوں کو وفاق سے جو شکایات تھیں ان کا بہت حد تک مداوا ہوا اور ابھی بھی 18ویں ترمیم کی بہت ساری چیزوں پرعمل درآمد کیا جانا باقی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی بجائے اس میں کی گئی ترامیم پر مزید عمل درآمد ہونا چاہیے، اگر اس میں کوئی ابہام رہ گیا ہے تو اس کو دور کیا جاناچاہیے لیکن اس کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔
سہیل وڑائچ نے مزید کہا کہ 18ویں ترمیم سے جو کچھ صوبوں کو دیا جا چکا ہے وہ اچھا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کا عوام کو فائدہ کب ہونا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو زیادہ فنڈزاور اختیارات ملے، لیکن جو اختیارات صوبوں سے نیچے ضلعی سطح تک منتقل ہونے تھے وہ نہیں ہوئے۔کوئی لوکل فنانس کمیشن نہیں بنایا گیا، اس ترمیم کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ مرکز سے صوبے تک اور صوبے سے ضلعی سطح تک اختیارات پہنچائے جائیں لیکن ایسا نہ ہو سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے مرکز ولن ہوتا تھا اب صوبہ ولن ہو گیا ہے۔