الیکشن میں دھاندلی کا قبل از وقت ڈھنڈورا کون پیٹنے لگا؟

آئندہ برس فروری میں پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں لیکن جیل میں موجود سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن نے انتخابات کی ساکھ پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔مبصرین کے مطابق انتخابات میں تمام فریقین کی عدم شمولیت اور ساکھ کا فقدان سیاسی بحران کو جنم دے سکتے ہیں اور پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی طور پر پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔ "نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے۔” پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں میں سے دو کی طرف سے یہ دعوے کیے جانا کہ آنے والے انتخابات میں برابری کے میدان کا فقدان ہے، "ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔”دوسری جانب  اطلاعات و نشریات کے موجودہ وزیر مرتضیٰ سولنگی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پری پول دھاندلی کے الزامات بے بنیاد اور قبل از وقت ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کاکڑ کی حکومت کو یہ تاثر ختم کرنا چاہیے کہ عبوری حکومت عمران خان کو کسی بھی طریقے سے اقتدار سے دور رکھنا چاہتی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس اگست میں پاکستان کے نگران وزیر اعظم بننے والے انوار الحق کاکڑ کو یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد نوے دن کے اندر اندر عام انتخابات کروانے تھے لیکن حکومت کی طرف سے سکیورٹی خدشات اور خستہ معاشی صورتحال جیسی تاویلوں کے سبب الیکشن کی حتمی تاریخ میں مسلسل تاخیر ہوتی گئی۔ بہر کیف آٹھ فروری 2024ء کو ملک میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں لیکن اس ڈیڈلائن کو پورا کرنے میں بھی کئی چیلنجز موجود ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان بدعنوانی اور دیگر مقدمات کے نتیجے میں کئی مہینوں سے جیل میں قید ہیں۔ اسی طرح ان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے کئی اعلیٰ عہدیدار بھی عدالتوں اور جیلوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اس وجہ سے انتخابات کی شفافیت کے معاملے پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دوران شدید اقتصادی بحران سے بھی دوچار ہے۔اس غیر یقینی صورتحال میں عبوری حکومت ملک کو متعدد بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ آئینی طور پر اس کا واحد کام عام انتخابات کا انعقاد ہے۔  تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں مزید تاخیر کاکڑ کے بلاک کو مزید غیر مقبول بنا سکتی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار اور امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ "نگران حکومت کا واحد کام انتخابات کی نگرانی کرنا ہے لیکن کئی طریقوں سے، اس نے اپنے آئینی کردار سے ہٹ کر کام کیا ہے۔” نگران حکومت آئینی طور پر ضروری معاملات کے علاوہ اہم پالیسی فیصلے کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان اقدامات نے نگران حکومت کو "متنازعہ” بنا دیا ہے۔

لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ملک ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے، اور انہیں انتخابات کے انعقاد سے قبل بہت سے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ عمران خان کی حکومت کو زوال پذیر معیشت اورطاقتور فوج کے ساتھ سویلین اداروں کے تصادم کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

اسلام آباد میں مقیم سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی کے مطابق عبوری حکومت پچھلی حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہے۔ اسی لیے وہ بہت سے مالیاتی فیصلے لے رہی ہے۔”

بہت سے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ اگر عمران خان کو الیکشن میں حصہ لینے دیا گیا تو وہ اگلی پارلیمنٹ میں آسانی سے اکثریت حاصل کر لیں گے۔ لیکن فروری کے انتخابات میں عمران خان کی شرکت نا ممکن دکھائی دیتی ہے۔

خیال رہے کہ عمران خان کو اپریل 2022ء میں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے معزول کر دیا گیا تھا۔ وہ عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہیں پانچ اگست 2023ء کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔جب خان کو اس سال پہلی مرتبہ 9 مئی 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا، تو ان کے حامی احتجاج میں سڑکوں پر نکل آئے، مبینہ طور پر انہوں نے عوامی املاک اور فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔ اس عمل نے سابق وزیر اعظم کو موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ براہ راست تصادم میں ڈال دیا۔

عمران خان کے بین الاقوامی میڈیا امور کے مشیر زلفی بخاری کے مطابق انتخابات سے قبل سب سے بڑی سیاسی جماعت پر پابندیاں ‘پری پول دھاندلی’ کے مترادف ہے۔ "ظاہر ہے کہ انتخابات منصفانہ نہیں ہوں گے۔”بخاری کو خدشہ ہے کہ نگران حکومت اپنی پسند کے انتخابی نتائج کو یقینی بنانے کے لیے دسمبر اور جنوری میں پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کرے گی۔ اسی حوالے سے صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا، "پی ٹی آئی کے لیے سیاسی جگہ سکڑتی جا رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پی ٹی آئی عہدیداروں اور حامیوں کو رہا کرے جو نو مئی کے حملوں میں ملوث نہیں تھے، یا انہیں منصفانہ ٹرائل کا حق دیا جانا چاہیے۔”

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کا انحصار عبوری حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی بجائے منصفانہ انتخابات پر ہے۔

Back to top button