جسٹس نقوی نے کس لالچ میں اپنی بچی کھچی عزت نیلام کی؟

سپریم کورٹ کے ٹرک والے جج کہلانے والے جج جسٹس مظاہر نقوی نے کرپشن، مالی بدعنوانی، اختیارات کے غلط استعمال سمیت آمدن سے زائد اثاثوں بارے الزامات کا جواب دے کر اپنے وقار کا تحفظ کرنے کی بجائے صرف پنشن اور مراعات کو بچانے کیلئے استعفی دے کر اپنی عزت سرعام نیلام کر دی ہے۔ ناقدین کے مطابق جسٹس مظاہر نقوی نے اپنی عزت اور شہرت کا دفاع کرنے کی بجائے دس بارہ لاکھ روپے ماہانہ پنشن اور مہنگی مراعات کو ترجیح دی کیونکہ سپریم جوڈیشل کونسل سے اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا اور انھیں برطرف کر دیا جاتا تو موصوف پنشن اور مراعات سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ ناقدین کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں پیسہ اکثر عزت پر حاوی ہوجاتا ہےکوئی اپنی عزت کے لیے کھڑا نہیں ہوتا۔ ٹرکوں والے جج جسٹس نقوی نے بھی پیسوں کو اپنی عزت پر ترجیح دیتے ہوئے استعفی دھ دیا ہے۔ خس کے بعد جہاں وہ لاکھوں روپے کی پنشن کے حقدار قرار پائے ہیں وہیں وہ تمام سنگین الزامات سے بھی بری ہو گئے ہیں۔ اب ان کیخلاف نہ تو کوئی مقدمہ چلے گا اور نہ ہی انھیں کوئی سزا ہو گی۔جسٹس نقوی نے استعفی دے کر بڑا مالی اور قانونی فائدہ سمیٹ لیا ہے۔

بعض دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیالُ کے منہ پر بھی ایک زور دار تھپڑ ہے جنھوں نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو ساتھ بٹھا کا کہا تھا کہ یہ ایک خاموش پیغام ہے اُنکے لئے جو جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں۔جسٹس نقوی کے استعفے سے ثابت ہوا کہ جسٹس بندیال اور جسٹس مظاہر نقوی ایک جیسے کردار کے حامل ہیں جو مقابلے کے وقت دُڑکی لگاتے دیر نہیں کرتے۔

ایک دن پہلے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے حق میں ایک نوٹ جاری کرنے والے جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو جسٹس نقوی اپنی پنشن و مراعات کی پوٹلی اُٹھا کر بھاگتے نظر آئے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفی کے ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی بھی گھر چلی گئی۔۔۔ اب جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف اختیارات کے غلط استعمال اور کرپشن الزامات پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ تاہم دوسری جانب لیگی حلقوں کا کہنا یے کہ جسٹس نقوخ کے استعفے سے ان کے گناہ نہیں دھلے۔ٹرکوں والی سرکار کو آج نہیں تو کل اپنے کالے کرتوتوں کا جواب دینا پڑے گا۔ ایسے جان نہیں چھوڑے گی، ٹرکوں کا حساب تو دینا ہوگا۔

تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے کن مراعات کیلئے اپنی عزت کا جنازہ نکالتے ہوئے استعفی دیا ہے؟ یعنی جج کو استعفی دینے یا ریٹائرڈ ہونے پر کون کون سی مراعات ملتی ہیں؟

قانونی ماہرین کے مطابق استعفے کی منظوری کی صورت میں جج کو تنخواہ کے برابر ماہانہ پنشن ملا کریگی۔ تاحیات سرکاری گاڑی‘ پانچ ملازمین بشمول ڈرائیور و پٹرول‘ اردلی‘ کک‘ مالی‘ ڈرائیور‘ جمعدار سرکاری خرچ پر دستیاب ہونگے۔ ان پانچوں ملازمین کو ماہانہ پانچ ماہ کی تنخواہ کے برابر (ایک ماہانہ تنخواہ اور چار ماہانہ تنخواہوں کے مساوی جوڈیشل الائونس) سرکاری خزانے سے دیا جاتا رہے گا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو جج سپریم کورٹ کے عہدے سے استعفیٰ بھجوا کر اپنے ہر قسم کے اثاثے محفوظ کر لینے کے علاوہ اگلے کچھ عشروں کیلئے بہت سی مراعات کے حقدار رہنے کی کوشش کی ہے جن میں اُنکی آخری ماہانہ تنخواہ کے برابر پنشن کی رقم ماہوار ملتی رہے گی۔

مبصرین کے مطابق گزشتہ سال پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کے مطابق سپریم کورٹ کے ایک جج کی تنخواہ 15 لاکھ سے زیادہ جبکہ ریٹائرڈ جج کو اپنی تنخواہ کا 70 فیصد بطور پینشن ملتا ہے جس پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ریٹائرڈ جج دوران ملازمت اپنے زیرِاستعمال سرکاری گاڑی کم قیمت میں خرید سکتا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائیوں کے نتیجے میں برطرف ہونے والے ججز کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں اور حالیہ سالوں میں صرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی ایک ایسے جج تھے جنہیں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے ذریعے برطرف کیا گیا۔ زیادہ تر جب بھی کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کا آغاز کیا جاتا ہے تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے ہیں جس کے بعد انہیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جاتا ہے اور ان کو ریٹائرڈ جج کی ساری مراعات ملتی ہیں۔سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل ذوالفقار احمد بھٹہ کے مطابق جسٹس مظاہر نقوی بھی اب ریٹائرڈ تصور ہوں گے اور وہ پینشن سمیت تمام مراعات کے حقدار ہوں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ ججز کی تنخواہیں 15 لاکھ روپے سے زیادہ ہیں۔ سپریم کورٹ ججز آرڈر 1997 کے پیراگراف 16 کے مطابق سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو ان کی تنخواہ کا 70 فیصد بطور پینشن ملتا ہے جس کا تعین صدر مملکت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جتنے سال سروس کی ہو اس ایک سال کے لیے 5 فیصد پینشن بھی ملتی ہے لیکن پینشن کی شرح تنخواہ کے 85 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔

سپریم کورٹ ججز آرڈر 1997 کے پیراگراف 25 کے مطابق سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو 2 ملازمین جن میں ایک ڈرائیور اور ایک اردلی، 3 ہزار فری ٹیلی فون کالز، 2 ہزار یونٹس بجلی، 2500 کیوبک میٹر گیس، مفت واٹر سپلائی، 300 لیٹر پٹرول اور پولیس کی جانب سے ہر 8 گھنٹے کی شفٹ کے لیے ایک سیکیورٹی گارڈ کی سہولت ملتی ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے 3 اکتوبر 2023 کو وزارت خزانہ کو ایک خط لکھتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے گھر پر سولر سسٹم لگوایا ہوا ہے اس لیے ان کے 3 سال تک کے 2 ہزار یونٹس ماہانہ ان کے بجلی کے بل کی نیٹ مانیٹرنگ میں ایڈجسٹ کیے جائیں مگر وزارت خزانہ نے اس سے انکار کر دیا تھا۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک وکیل ذوالفقار احمد بھٹہ نے گزشتہ جنوری میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کے پینشن اور مراعات بہت زیادہ ہیں اور ملک کو درپیش معاشی مسائل کے پیش نظر ان کو کم کیا جائے لیکن رجسٹرار آفس نے وہ درخواست اعتراضات کے ساتھ واپس کر دی تھی کہ یہ مفاد عامہ کا کوئی مقدمہ نہیں۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے ایک متفرق درخواست دائر کی تھی۔ ایڈووکیٹ بھٹہ نے بتایا کہ مذکورہ درخواست ابھی زیر سماعت ہے۔

Back to top button