ذوالفقار علی بھٹو نے فرزند اقبال کو کیسے چت کیا؟

1970 کی دہائی میں الیکشن کے دوران جب ذوالفقار علی بھٹو نے فرزند اقبال کو شکست سے دوچار کیا تو پنجابیوں سمیت لاہوریوں کی بڑی تعداد تنقید کی زد میں آگئی، زہرا منظور الٰہی نے خود نوشت ’ہمسفر‘ میں لکھا ہے کہ 1970 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو نے جاوید اقبال کو شکست دی تو ان کے ابا جی نے کہا: ’لاہور سے علامہ اقبال کا بیٹا ہار جائے، شرم کا مقام ہے۔‘ آغا شورش کاشمیری نے ’چٹان‘ میں نظم لکھ کر فرزندِ اقبال کی ہار پر پنجابیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔بھٹو کی لاہور سے کامیابی پر اہلِ لاہور، تحسین کے مستحق تھے نہ کہ تنقید کے، انہوں نے سیاست کو علاقائی اور لسانی تعصب کی عینک سے دیکھنے کے بجائے شعور کی آنکھ سے دیکھا، بھٹو کو لاہور سے کامیابی پر بڑا ناز تھا، جاوید اقبال نے یہ بات ریڈیو پر بھٹو کی زبانی سنی لیکن اخبارات میں تقریر رپورٹ ہوئی تو اس میں فرزندِ اقبال والا فقرہ غائب تھا، کونسل مسلم لیگ کے امیدوار ڈاکٹر جاوید اقبال کے سب سے بڑے سپورٹر شورش کاشمیری تھے جو ان کے جلسوں کا اہتمام بھی کرتے۔ نوائے وقت کے مجید نظامی ان کے حمایت میں پیش پیش تھے، جماعت اسلامی ساتھ دے رہی تھی۔مولانا مودودی نے پاکستان ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ نواب زادہ نصر اللہ سے کہا کہ وہ اپنی پارٹی کے امیدوار میجر جنرل سرفراز خان کو دستبردار کروا لیں تاکہ بھٹو اور جاوید کا ون ٹو ون مقابلہ ہو مگر انہوں نے یہ بات نہیں مانی۔صدر جنرل یحییٰ خان کی ہمدردیاں بھی جاوید اقبال کے ساتھ تھیں اور وہ انہیں متحدہ مسلم لیگ کا صدر دیکھنا چاہتے تھے، بھٹو سے الیکشن ہارنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے ڈاکٹر جاوید اقبال کو جج بنانے کی سفارش یحییٰ خان کے پاس پہنچی تو انہوں نے جاوید اقبال سے کہا کہ ’چیف جسٹس نے ججی کے لیے آپ کا نام بھیجا ہے، لیکن آپ نے اتنی جلدی ہمت کیوں ہار دی؟ میں تو گزشتہ الیکشنوں کو کالعدم قرار دینے کے بارے میں سوچ رہا ہوں اور ازسر نو الیکشن کرانے کا ارادہ ہے جس کے رولز کے تحت اس سیاسی جماعت کو کامیاب قرار دیا جائے گا جو اپنے ’ونگ‘ کے علاوہ پاکستان کے دوسرے ’ونگ‘ سے ایک تہائی ووٹ حاصل کرے‘ میں (جاوید اقبال) نے عرض کی ’سر! میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھ میں ملکی سیاست میں حصہ لینے کی صلاحیت نہیں ہے۔‘جاوید اقبال کو علامہ اقبال کا سپوت ہونے کا فائدہ حاصل تھا، ان کی اس شناخت کو انتخابی جلسوں میں اجاگر کیا جاتا، جاوید اقبال پاکستان بنانے والی پارٹی کا امیدوار ہونے کے دعوے دار تھے۔ اسی حلقے سے کنونشن مسلم لیگ کے ٹکٹ پر احمد سعید کرمانی میدان میں تھے، جن کا لاہور کے ایک سیاسی اجتماع میں ذکر ہونے پر بھٹو نے کہا تھا ’ہُو اِز شی؟‘بھٹو پر جاوید اقبال کو یہ سیاسی برتری حاصل تھی کہ دسمبر 1964 میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں انہوں نے ایوب خان کے بجائے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا اور جلسوں میں ان کے ساتھ رہے تھے۔ بھٹو اس زمانے میں ایوب خان کے قریبی ساتھی تھے۔ 70ء کے الیکشن میں بھٹو کے ذاتی کردار پر مخالفین کی طرف سے کیچڑ تو اچھالا ہی گیا، سوشلزم بھی بمنزلہ کفر قرار پایا۔ جاوید اقبال کو نظریہ پاکستان کے علمبردار اور بھٹو کو اس نظریے کے دشمن کی صورت میں پیش کیا جاتا۔ ان کے پوسٹروں پر یہ لکھا ہوتا کہ مقابلہ جاوید اقبال سے نہیں فکر اقبال سے ہے۔ الیکشن میں جاوید اقبال کی طرف سے ووٹروں کے لیے قیمے والے نانوں اور ٹرانسپورٹ کا بھی انتظام تھا لیکن یہ سب بھی ان کے کام نہ آیا۔الیکشن کا نتیجہ آیا تو بھٹو نے 78 ہزار 132 اور جاوید اقبال نے 33 ہزار 921 ووٹ حاصل کیے۔الیکشن ہارنے کے بعد جاوید اقبال کا سیاست سے جی بھر گیا۔ ان کی اگلی منزل لاہور ہائی کورٹ کا جج بننا تھی۔ انہیں جج کی حیثیت سے 1972 میں بھٹو نے ہی کنفرم کیا۔سنہ 1977میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو کے خلاف کیس میں جاوید اقبال کو بینچ کا حصہ بنانا چاہا تو انہوں نے اس بنا پر انکار کر دیا کہ وہ ملزم کے مقابلے میں الیکشن لڑ چکے ہیں، یوں وہ لاہور ہائی کورٹ کے اس بدنام زمانہ بینچ کا حصہ بننے سے بچ گئے جس نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔

Back to top button