39 برس قبل ہونیوالا ضیا الحق کا ریفرنڈم کتنا منصفانہ تھا؟

ریفرنڈم بلاشبہ عوامی رائے کا ترجمان ہوتا ہے، پاکستان کی تاریخ میں کئی ریفرنڈم ہو چکے ہیں لیکن 39 سال قبل ہونے والا ضیا الحق کا ریفرنڈم غیرمنصفانہ ہونے کے حوالے سے ہمیشہ کیلئے تاریخ میں ثبت ہو چکا ہے۔اردو نیوز سے وابستہ صحافی سید صفدر گردیزی بتاتے ہیں کہ ’19 دسمبر 1984 کو حسب اعلان کہنے کو تو ریفرنڈم ہوا لیکن اس میں حصہ اتنے کم لوگوں نے لیا کہ ہمیں شرم آنے لگی، ریفرنڈم والے دن میں نے اس وقت کے ڈآئریکٹر انٹیلیجنٹس بیورو کے ساتھ اسلام آباد اور راولپنڈی میں واقع چند پولنگ سٹیشنوں کا دورہ کیا، وہ سب سنسنان اور ویران پڑے ہوئے تھے۔آج سے 39 برس قبل پاکستان میں ہونے والے ریفرنڈم کا آنکھوں دیکھا حال اس دور کے وفاقی سیکریٹری داخلہ روئیداد خان کی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں بیان کیا گیا ہے، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان ضیا الحق کی جانب سے عوام سے پوچھے گئے سوال پر ہونے والے ریفرنڈم کے سرکاری نتائج میں 80 فیصد عوامی شرکت اور 90 فیصد کی طرف سے مثبت جواب کا اعلان کیا گیا تھا۔ضیا الحق نے پانچ جولائی 1977 کو مارشل لا نافذ کرتے ہوئے اکتوبر میں انتخابات کا اعلان بھی کیا تھا، 15 جولائی کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مشتاق حسین کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا۔ ان کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے انتخابی نظام وضع کر کے 2 اگست کو الیکشن کے شیڈیول کا اعلان کر دیا۔18 اکتوبر 1977 کو ایک ہی روز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے تھے مگر یکم اکتوبر کو ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر خطاب میں ضیا الحق کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ان حالات میں الیکشن کروانا ایک بدترین بحران کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ضیا الحق کے ساتھ آٹھ برس تک چیف آف سٹاف رہنے والے جنرل ریٹائرڈ کے ایم عارف اپنی کتاب ’ورکنگ ود ضیا‘ میں انتخابات کے التوا کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ضیا الحق اس بات کو روکنا چاہتے تھے کہ بھٹو کا مقدمہ کہیں انتخابی مسئلہ نہ بن جائے، ضیا جو اب تک ایک متذبذب حکمران تھے اقتدار کا مزہ چکھنے کے بعد طاقت اور اختیار کے سحر میں گرفتار ہو گئے تھے۔جب ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو سے عدالت کے ذریعے چھٹکارا حاصل کرنے کا بندوبست کر لیا تو انہوں نے 23 مارچ 1979 کو ایک مرتبہ پھر عام انتخابات کا اعلان کر دیا مگر ایک بار پھر انہوں نے ’مثبت نتائج‘ نہ ملنے کا جواز بنا کر الیکشن منسوخ کر دیئے۔ اس بار پیپلز پارٹی کے مخالف سیاسی رہنماؤں نے بھی انہیں بھٹو کے بغیر پیپلز پارٹی کی واپسی کا ڈراوا بھی دیا۔’دوسری بار الیکشن کے التوا نے ضیا کی شہرت اور ساکھ کو دھچکا دیا۔ ان کے اعتماد اور اعتبار کا جو گراف پہلے ہی مشکوک تھا اور نیچے چلا گیا۔‘ضیا الحق کے چیف آف سٹاف جنرل کے ایم عارف نے ان الفاظ میں انتخابی وعدہ خلافی کے نتائج کا تجزیہ کیا کہ 1984 تک ضیا کا جوش ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ انتخابات سے بار بار انکار سے وہ عوام کا اعتبار کھو چکے تھے، ضیا الحق کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ سیاسی عمل کا آغاز کریں، انہیں ہر لمحہ یہ احساس ستاتا تھا کہ ان کا اقتدار عوامی تائید نہیں بلکہ توپ کے دہانے کی مرہون منت ہے۔اس احساس سے چھٹکارا پانے کے لیے انہوں نے یکم دسمبر کو اعلان کیا کہ 19 دسمبر کو ریفرنڈم کے ذریعے لوگوں سے رائے لی جائے گی۔اگر ووٹرز کی اکثریت کا جواب ’ہاں‘ میں ہوا تو اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ پاکستان کے عوام نے موجودہ حکومت پر اعتماد کیا ہے۔اس دور کے انتخابی قوانین کے مطابق ووٹ ڈالتے وقت شناختی کارڈ دکھانا ضروری نہیں تھا۔ ضیا الحق نے عوام کو قائل اور مائل کرنے کے لیے انہوں نے ملک گیر دورے کیے۔ دور دراز علاقوں میں لوگوں کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کی اطلاعات نے انہیں تشویش میں مبتلا کر دیا۔شناختی کارڈ لازمی والی شرط کا از سر نو جائزہ لینے کا حکم دیا گیا۔ ووٹ ڈالنے کے لیے شناختی کارڈ دکھانے کی پابندی واپس لے لی۔اس رعایت سے بھی لوگوں کے دل اور قدم پولنگ سٹیشن کی طرف مائل نہ ہوئے۔لوگوں کی عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے صبح 11 بجے یہ حکم دیا گیا کہ کوئی بھی شخص اپنے مقررہ پولنگ سٹیشن سے ہٹ کر کہیں بھی ووٹ ڈال سکتا ہے جس پر جاوید اقبال اعوان نے یہ تبصرہ کیا، ’صبح 11 بجے تک ریفرنڈم کا عمل منصفانہ اور پھر مکمل طور پر آزاد ہو گیا۔‘اس محدود سیاسی عمل پر لوگوں کی تنقید سے ضیا الحق برہم ہوئے۔ لیکن اس سرگرمی نے یہ حقیقت عیاں کر دی کہ جبر کے باوجود لوگ مارشل لا حکومت سے سخت بیزار ہیں۔ضیا کی پالیسیوں کے کھوکھلے پن نے انہیں مجبور کیا کہ جنوری 1985 میں انہوں نے غیر جماعتی الیکشن کے انعقاد کا اعلان کیا۔ جس سے محدود ہی سہی مگر ملک میں سیاسی نظام کی بحالی کے سفر کا آغاز ہوا۔39 برس قبل ریفرنڈم پر ضیا الحق کے قریبی رفقا کی تنقید اس سارے عمل کے بودے پن کو ثابت کرتی ہے۔ مگر عوامی شاعر حبیب جالب کی یہ نظم ان تمام فلسفیانہ بحثوں پر بھاری ثابت ہوئی:
شہر میں ہو کا عالم تھا

جن تھا یا ریفرنڈم تھا

مرحومین شریک ہوئے

سچائی کا چہلم تھا

دن 19 دسمبر کا

بے معنی بے ہنگم تھا

Back to top button