انڈین جاسوس کو اپیل کا حق دینا ہے تو پاکستانیوں کو بھی دیں


سینیٹ کی قانون وانصاف کی قائمہ کمیٹی نے صرف بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کو رعایت دینے کے لیے قانون سازی کرنے کی بجائے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے کی تجویز دے دی ہے تاکہ پاکستانیوں کو بھی اپیل کا حق مل سکے۔ کمیٹی ارکان کا کہنا ہے کہ کلبھوشن جادھو کو ’دشمن ملک‘ کا جاسوس ہونے کے باوجود سزا پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا حق دیا جا رہا ہے تو آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے پاکستانی شہریوں کو بھی فوجی عدالتوں سے دی گئی سزاؤں کے خلاف اپیل کرنے کا حق دیا جائے۔
سینیٹ کی قانون وانصاف کی قائمہ کمیٹی کے جن ارکان نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تجویز دی ہے ان میں سے اکثریت کا تعلق حزب مخِالف کی جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور جمیعت علمائے فضل الرحمن گروپ سے ہے۔
ایوان بالا کی قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کے بارے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر غور کرنے اور مجرم کو نظر ثانی کا حق دینے کے بارے میں 4 اگست کو اسلام آباد میں ہوا تھا۔ اجلاس کی صدارت تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کی۔
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم قائمہ کمیٹی کے ارکان کو اس معاملے پر بریفنگ دینے لگے تو کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ ان کے پاس تو کلبھوشن جادھو کے بارے میں انٹرنینشل کورٹ آف جسٹس کے فیصلے کی کاپی ہی موجود نہیں ہے تو پھر اس کو کیسے زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔ ارکان کا کہنا تھا کہ جب تک وہ اس فیصلے کو پڑھیں گے نہیں اس حوالے سے نظرثانی بل پر اپنی رائے کیسے دے سکتے ہیں۔ کمیٹی کے چیئرمین نے وفاقی وزیر قانون سے کہا کہ وہ پہلے ارکان کو اس مقدمے کے خدوحال کے بارے میں بتائیں جس پر فروغ نسیم نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ انڈین جاسوس کو تین مارچ 2016 میں گرفتار کیا گیا جبکہ فوجی عدالت نے10 اپریل 2017 کو جرم ثابت ہونے پر انڈین جاسوس کو موت کی سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف انڈین حکومت نے مئی2017 میں انٹرنیشل کورٹ آف جسٹس میں اپیل دائر کی تھی۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے وفاقی وزیر قانون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں کمیٹی کے ارکان کو مطمئن کرنا ہوگا کہ بھارتی جاسوس کو اپیل کا حق دینے کے لیے ایکٹ لانا کیوں ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ آئی سی جے نے تو پاکستان کو پابند نہیں کیا کہ وہ اس حوالے سے قانون سازی کریں۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اگر آئی سی جے کے فیصلے میں قانون سازی کے بارے میں کہا گیا ہے تو پھر ضرور قانون سازی کریں۔
مسلم لیگ نواز کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر قانون سازی کرنی ہے تو سب کے لیے کیوں نہیں؟ انھوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے پاکستانیوں کو یہ حق کیوں نہیں دیا جا رہا۔
اجلاس میں فاروق ایچ نائیک نے سوال اٹھایا کہ نظرثانی سے متعلق آرمی ایکٹ میں ترمیم کیوں نہ کی جائے؟ جس پر سینیٹر اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ اس وقت آرمی ایکٹ میں ترمیم کا معاملہ نہ کھولا جائے۔
قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ‘اس قانون میں ایک غلطی نظر آ رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک دشمن ملک کا جاسوس جس نے اتنی دہشتگردی پھیلائی آپ اس کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔’ کمیٹی کے رکن اور جمیعت علمائے سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کامران مرتضٰی کا کہنا تھا کہ دشمن ملک کے جاسوس کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں اپنے شہریوں کو یہ حق نہیں دیا جا رہا۔ کامران مرتضیٰ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے ہیں۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ حکومت کلبھوشن جادھو کو اپیل کا حق نہیں دے رہی اور اگر کمیٹی کے کچھ ارکان ایسا سمجھ رہے ہیں تو پھر انھوں نے یہ قانون پڑھا ہی نہیں جس پر سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت مجرم کو فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کا حق دینے کی کوشش کر رہی ہے اس لیے چپکے سے صدارتی آرڈیننس لایا گیا۔حزب مخالف کی جماعتیں یہ الزام عائد کر رہی ہیں کہ یہ صدارتی آرڈیننس کلبھوشن جادھو کو مدد فراہم کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔
مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے ارکان اس بات پر متفق ہیں کہ جو ایک کو حق دیا جا رہا ہے وہ سب کو دیا جائے۔ یہ سن کر وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم غصے میں آگئے اور کہا کہ ایک ہی سوال کو بار بار نہ پوچھا جائے، جس پر ڈاکٹر مصدق نے کہا کہ کیا وہ اس معاملے پر بات نہ کریں اور اجلاس سے اٹھ کر چلیں جائیں۔ انھوں نے کہا کہ ارکان بات کریں گے اور حکومت کو یہ باتیں سننا ہوں گی۔ مصدق ملک نے فروغ سے سخت لہجے میں کہا کہ وہ اس طرح ڈکٹیشن نہیں دے سکتے کیونکہ وہ کمیٹی کے چیئرمین نہیں ہے جس پر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اگر وہ چیئرمین نہیں ہیں تو ان کے ذاتی ملازم بھی نہیں۔
اس موقع پر کمیٹی کے رکن اور سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مداخلت کی اور وزیر قانون سے سوال کیا کہ فرض کریں آئی سی جے کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتے تو اس کا کیا اثر ہوگا۔انھوں نے کہا کہ کیا یہ درست نہیں کہ کچھ کیسوں میں آئی سی جے کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس قانون پر عملدرآمد نہ ہوا تو انڈیا ہمارے خلاف آئی سی جے میں توہین عدالت کی درخواست لے کر چلا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا پاکستان کے خلاف سکیورٹی کونسل میں قرارداد بھی لاسکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ حکومت نے اس مقدمے کے حوالے سے جو اقدامات کیے ہیں اس کی وجہ سے انڈیا آج تک پاکستان کے خلاف کچھ نہیں کر سکا۔ قائمہ کمیٹی کے ارکان کے پاس آئی سی جے کے فیصلے کی کاپی نہ ہونے کے باعث بل پر بحث آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دی گئی۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت نے آئی سی جے کے فیصلے کی روشنی میں انڈین جاسوس کو فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے جس پر عدالت نے حکومت کو اس حوالے سے انڈین حکومت کو خط لکھنے اور وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے بارے میں کہا۔اٹارنی جنرل خالد جاوید کے مطابق انڈین حکومت اس مقدمے کی پیروی کے لیے انڈین وکیل کو عدالت میں پیش کرنے پر بضد ہے تاہم اٹارنی جنرل کے مطابق پاکستانی قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

Related Articles

Back to top button