لیڈی ڈیانا کی موت بارے آٹھ سازشی نظریے کون سے ہیں؟

31 اگست 1997 کی رات پیرس میں ایک کار حادثے میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے والی لیڈی ڈیانا کی موت کے بارے میں 25 برس بعد بھی مختلف سازشی کہانیاں گردش میں ہیں جن کے مطابق ان کی کار کو پیش آنے والا حادثہ ایک سازش کا نتیجہ تھا جس کا مقصد ڈیانا کی جان لینا تھا۔ اس رات دیانا کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے برطانوی شاہی خاندان یا اسٹیبلشمنٹ کی واردات قرار دیا جاتا ہے۔

متعدد رپورٹوں، تحقیقات اور ماہرین سبھی واقعات کے بارے میں سرکاری بیان سے متفق ہیں کہ ڈیانا ایک کار میں سوار تھیں جسے ایک ایسا شخص چلا رہا تھا جو شراب کے نشے میں تھا اور یہ کہ ان کی اور اس کے ساتھ دیگر اداروں کی ناکامی کی وجہ سانحہ رونما ہوا۔ لیکن دوسرے لوگوں کا اب بھی ماننا ہے کہ اس رات کچھ زیادہ خفیہ طور پر اور جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔ سازشی نظریات نے کئی دوسری صورتیں اختیار کیں لیکن سبھی ایک ہی بنیادی خیال کی طرف اشارہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں: یعنی کہ کوئی ڈیانا کو مارنا چاہتا تھا اور اس رات پیش آنے والے جان لیوا حادثے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

ٹریگر دبانے کے باوجود ارجنٹائن کی نائب صدر کیسے بچ گئیں؟

یہ سازشی نظریات اتنے وسیع پیمانے پر پھیل گئے کہ برٹش پولیس ایک انکوائری شروع کرنے پر مجبور ہو گئی جس کا بنیادی مقصد ان سازشی نظریات کی صداقت کو جانچنا تھا۔ برسوں تک تحقیقات کا عمل جاری رہا جس پر لاکھوں پاؤنڈ خرچ ہوئے جس کے بعد پتہ چلا کہ تمام سازشی نظریات مکمل طور پر بےبنیاد تھے اور اس رات جو کچھ ہوا وہ ایک ناقابل یقین حد تک بدقسمتی سے ہونے والا حادثہ تھا۔

31 اگست 1997 کی رات کیا ہوا تھا؟ تحقیقاتی رپورٹ میں اس بارے 175 سازشی نظریات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سازشی نظریات میں سے کچھ مختصر تھے اور کچھ میں گہرائی تھی۔ لیکن انکوائری میں معلوم ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی درست نہیں۔ پھر بھی یہ سازشی نظریات زور پکڑتے گئے جس کی بنیادی وجہ وہ حقائق ہیں جو یہاں تفصیل سے بیان کیے جا رہے ہیں۔ڈیانا کے ساتھ کار حادثے میں مارے جانے والے ان کے بوائے فرینڈ دودی الفاید کے والد محمد الفاید کے مطابق قتل کی وجہ یہ تھی کہ ڈیانا ان کے بیٹے کے بچے کی ماں بننے والی تھیں اور یہ برطانوی ریاست کو گوارا نہیں تھا۔

الفاید کا کہنا تھا کہ شاہی خاندان ’یہ قبول نہیں کر سکتا تھا کہ ایک مصری مسلمان آخرکار برطانیہ کے مستقبل کے بادشاہ کا سوتیلا باپ ہو،‘ اور اس طرح اس نے ڈیانا کو قتل کرنے کی سازش کی۔ یاد رہے کہ ممکنہ حمل کی بحث ڈیانا کی موت سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔ انکی موت سے چند ہفتے پہلے فرانس میں چھٹی والے دن کچھ اخبارات نے قیاس آرائی کی کہ وہ حاملہ ہو سکتی ہیں۔

اس قیاس آرائی کو ڈیانا کے اس پراسرار تبصرے سے تقویت ملی جو انہوں نے ایک ’بڑے سرپرائز‘ کے بارے میں کیا تھا۔ لیکن شہزادی ڈیانا کی لاش کے پوسٹ مارٹم کے دوران حمل کا کوئی نشان نہ ملا۔ ان کے خون کے ٹیسٹوں سے معلوم ہوا کہ اس میں بھی حمل کی کوئی علامت نہیں تھی۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ ڈیانا کو شبہ ہو کہ وہ حاملہ ہو سکتی ہیں: متعدد قریبی دوستوں اور دوسرے لوگوں نے کہا کہ ان کی ماہواری معمول کے مطابق تھی۔ وہ مانع حمل ادویات استعمال کر رہی تھیں اور یہ کہ انہوں نے اپنے قابل اعتماد افراد سے بھی حاملہ ہونے کے امکان کا ذکر نہیں کیا تھا۔

سازشی نظریات کے پیچھے ایک بڑا محرک یہ ماننا ہے کہ ڈیانا نے خود سوچا تھا کہ وہ قتل کر دی جانے والی ہیں۔ اس حد تک یہ بات بظاہر درست لگتی ہے۔سازشی نظریات میں سب سے اہم ایک خط ہے جس کا انکشاف کبھی ڈیانا کے بٹلر رہنے والے پال بریل نے کیا۔ بٹلر کا کہنا تھا کہ انہیں یہ خط محفوظ رکھنے کے لیے دیا گیا۔ خط کے مطابق: ’میں اکتوبر میں آج یہاں اپنی میز کے سامنے بیٹھی ہوں، میری خواہش ہےکہ کوئی مجھے گلے سے لگائے اور مجھے جمے رہنے اور سر بلند رکھنے کا حوصلہ دے۔ میری زندگی کا یہ خاص مرحلہ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ چارلس کی شادی کے لیے راستہ صاف کرنے کی خاطر میری کار کے’حادثے،‘ بریک فیل ہونے اور سر میں شدید چوٹ کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

اس خط سے عجیب انداز میں لگتا ہے کہ ڈیانا کو حادثے کے بارے میں علم تھا۔ اور درحقیقت اس بات کے پیچھے تاریخ موجود تھی: خط لکھنے سے پہلے انہوں نے اپنی کار کے ساتھ مسائل کا سامنا کیا۔ انہوں نے ان مسائل کے حوالے سے خوف کا اظہار کیا اور ان کے محافظ ایک ایسے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے جس کے بارے میں ان کا ماننا تھا کہ یہ سازش تھی۔ڈیانا کو اپنی حفاظت کے بارے میں واضح طور پر خدشات لاحق تھے: اس حد تک کوئی سازشی نظریہ نہیں ہے۔ لیکن سرکاری سطح پر ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ انہیں واقعی قتل کر دیا جائے گا، چاہے شاہی خاندان کے کچھ افراد اور ڈیانا کے درمیان دشمنی ہی کیوں نہ ہو۔

حادثے کی رات ڈیانا کی کار کا پیچھا کرنے والے فوٹو گرافروں کو مسلسل ڈیانا کے قتل کا الزام دیا گیا اور دیا جا رہا ہے۔ یہ کہانی جزوی طور پر مقبول ہوئی کیوں کہ یہ ایک ایسی تشویش کو ظاہر کرتی ہے جس میں ڈیانا زندگی بھر مبتلا رہیں کہ جنسی خواہش ان کے لیے اکثر نقصان کا سبب بن جاتی تھی۔ اس نظریے کی تین مخصوص شکلیں ہیں۔ پہلا الزام ہے کہ فوٹوگرافروں کے گروپ نے ڈیانا کی مرسیڈیز کا پیچھا کیا اور اسے آگے جانے پر مجبور کیا تا کہ حادثہ پیش آ جائے۔ دوسری صورت میں استدلال ہے کہ فوٹوگرافروں کے گروپ نے ایسے ماحول کی حوصلہ افزائی کی جہاں حادثہ ہو سکتا ہو۔

تیسری صورت یہ بتاتی ہے کہ فوٹوگرافروں نے غلطی سے ایسی صورت حال پیدا کر دی تھی جسے سازش میں ملوث افراد نے کار میں موجود لوگوں کو مارنے کے لیے استعمال کیا۔ سرکاری سطح پر تحقیقات سے اشارہ ملتا ہے کہ فوٹوگرافر واقعی کوئی اہم گروپ نہیں ہیں: اگرچہ وہ ایک ہی کام کرتے ہیں، وہ عام طور پر بہترین تصویر کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مختلف کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں اور مکمل طور پر مختلف کام کرتے ہیں، کچھ پیشہ ور فوٹو جرنلسٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ سرکاری تحقیقات سے پتا چلا کہ ڈیانا جس مرسیڈیز کار میں تھیں، ایک طرح سے فوٹوگرافروں سے بچنے کے لیے اس کی رفتار زیادہ تھی۔ لیکن بات کی تحقیقات میں یہ نقطہ سامنے آیا کہ یہ فوٹوگرافروں کے نارمل رویے کا نتیجہ تھا اور وہ کسی مجرمانہ سازش میں حصہ نہیں لے رہے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ حادثے کے وقت ڈیاناکی کار چلانے والا ہنری پال پیرس کے رٹز ہوٹل میں سکیورٹی کے شعبے کا سربراہ تھا۔ لیکن سازشی نظریات پیش کرنے والوں کا ماننا ہے کہ وہ ایک اور تنظیم کے بھی تنخواہ دار تھے یعنی فرانس یا برطانیہ کی سکیورٹی سروسز۔ جو لوگ واقعات کے سرکاری بیان پر شک کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حادثے کے وقت پال کے نشے میں دھت ہونے کے بارے میں بیان میں کیا گیا مرکزی دعویٰ نہ صرف غلط تھا بلکہ یہ جھوٹ قتل کو چھپانے کے لیے میڈیا میں پھیلایا گیا۔ جزوی طور پر یہ کام ان کی لاش کو کسی دوسرے شخص کی لاش کے ساتھ تبدیل کر کے کیا گیا تا کہ نشے میں ہونے کے حوالے سے نتائج درست ثابت ہوں۔

لوگوں کے ایسا ماننے کی کئی وجوہات ہیں۔ مثال کے طور پر پال نے ایسا رویہ اختیار نہیں کیا جس سے ظاہر ہو کہ وہ رات کو پہلے سے نشے میں تھے۔ سکیورٹی سروسز کا تنخواہ دار ہونے کے حوالے سے خیالات کا تعلق حقیقت سے ہے کہ ان کے پاس توقع سے زیادہ رقم دکھائی دیتی ہے اور یہ کہ کچھ سکیورٹی دفاتر کا کہنا تھا کہ ہوٹل کے اندر ان کا کوئی فرانسیسی ذریعہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان میں سے کسی ایک بات کا بھی سرکاری بیان سے ہٹ کر کے حادثے سے کوئی تعلق ثابت ہوتا ہو۔ متعدد ٹیسٹوں سے معلوم ہوا کہ پال کے خون میں الکوحل موجود تھی حالانکہ ٹیسٹوں میں غلطیاں ہوئی تھیں اور ان غلطیوں کی بار بار جانچ سے تصدیق ہوئی ہے کہ پال واقعی شراب پیتے رہے تھے۔

اس کے علاوہ ایک اور سازشی نظریہ یہ ہے کہ ڈیانا جس مرسڈیز میں سفر کر رہی تھی اس میں خرابی تھی۔ اس سازش میں شاید اس سے زیادہ مرکزی کوئی نکتہ نہیں ہے کہ وہ کار جس میں ڈیانا سوار تھیں اس نے بالآخر انہیں ہلاک کر دینا تھا۔ سازشی نظریات والوں کا دعویٰ ہے کہ کار کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دی گئی تھی اور یہ کہ کار کی رفتار غیر معمولی تھی یا گاڑی میں کسی پرزے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔ لوگوں نے بتایا کہ اس رات کار کی رفتار واقعی زیادہ تھی لیکن اسے چلانے کے انداز کے حوالے سے کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈیانا کی کار اس رات حادثے والی سرنگ میں جاتے ہی روشنیاں چمکیں جن کے فوری بعد حادثہ ہو گیا۔ حادثے کا الزام انہی روشنیوں کو دیا گیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بہت سے لوگوں نے مختلف مقامات سے، مختلف اوقات میں، مختلف روشنیوں کے بارے میں بتایا۔ اس رات بہت سی روشنیاں تھیں: کار کے پیچھے پیچھے آنے والے فوٹوگرافرز اور گاڑیوں کی ہیڈلائٹس کی روشنی۔ لیکن سازشی نظریات پر یقین نہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سازش والی کوئی بات نہیں تھی۔ لیکن سازشی نظریات والوں کا ماننا ہے کہ ڈاکٹروں نے ڈیانا کو جان بوجھ کر موت کے منہ میں جانے دیا۔ ان کا درست علاج نہ کر کے انہوں کے صحت یاب ہونے میں رکاوٹ پیدا کی گئی۔

زیادہ تر سازشی نظریہ حادثے کے مقام پر ڈیانا کو طبی امداد کی فراہمی کے گرد گھومتا ہے۔ سازشی نظریات پیش کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر انہیں موقع پر طبی امداد دینے کی بجائے قریبی ہسپتال لے جایا جاتا اور وہاں علاج کیا جاتا تو شاید وہ بچ جاتیں۔ اس نظریے کا جزوی تعلق اس حقیقت سے ہے کہ ہنگامی دیکھ بھال کے لیے فرانسیسی طریقہ کار برطانیہ سے بالکل مختلف ہے۔ فرانس میں ہنگامی امدادی عملہ کسی شخص کو ہسپتال منتقل کرنے سے پہلے جائے وقوعہ پر علاج کرنے پر توجہ دیتا ہے لیکن برطانیہ میں زخمی کو فوری ہسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ تاہم ڈیانا کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ انکو اتنے گہرے زخم آئے تھے کہ ان کا بچنا محال تھا۔

Related Articles

Back to top button