جنرل باجوہ نے عمران کے حالیہ اقدامات کی نفی کیسے کی؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے پاکستان کو امریکہ کا ایک اہم اسٹریٹجک پارٹنر قرار دے کر اور یوکرین پر روسی حملے کو غلط کہہ کر نہ صرف خارجہ محاذ پر عمران کے حالیہ اقدامات کی نفی کر دی ہے بلکہ ان کے فرمودات سے ملکی مفاد کو پہنچنے والے نقصان پر قابو پانے کی کوشش بھی کی ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی قرار دیے جانے اور صدر علوی کی طرف سے وزیر اعظم کی ہدایت پر قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کے بعد ملک ایک ہمہ جہتی اور پیچیدہ آئینی اور سیاسی بحران کی لپیٹ میں آ گیا ہے جس سے ملک کے لیے سنگین مسائل کھڑے ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد سیاسی عمل کے دو بنیادی دھارے دیکھنے میں آئے۔

ایک طرف سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر تھا تو دوسری طرف حکومت اپنی ممکنہ شکست سے بچنے کے لیے تاخیری حربے اور نیم پختہ انتظامی، سیاسی اور آئینی حیلے بہانے تراشتی رہی۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ایک ایک کر کے حزب اختلاف سے جا ملنے اور حکومتی جماعت کے کم و بیش 20 ارکان کی کھلی بغاوت کے بعد مارچ کے آخری ہفتے میں واضح ہو گیا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ چنانچہ 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسہ عام میں وزیراعظم نے کاغذ کا ایک ٹکڑا لہراتے ہوئے بتایا کہ یہ ان کے خلاف غیر ملکی سازش کا دستاویزی ثبوت ہے۔

وجایت مسعود کے مطابق مبینہ سازش کی اس دستاویز کو ابتدائی طور پر انتہائی حساس قرار دیا جا رہا تھا تاہم اگلے 48 گھنٹوں میں اس حساس مراسلے کی تفصیل سب کے سامنے آ گئی، جس کے بارے میں کم از کم بیس دن تک کسی ریاستی ادارے یا عوام کو کانوں کان خبر نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں امریکا کی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو نے ایک ملاقات میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان کو بتایا کہ عمران خان پاکستان کے ریاستی اداروں سے مشاورت کیے بغیر روس سے دوستی بڑھا رہے ہیں، جو امریکا کو پسند نہیں۔ مبینہ طور پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر عمران نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو گی۔

بعد ازاں معلوم ہوا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر نے مبینہ طور پر اس ملاقات کی رپورٹ اپنی حکومت کو روانہ کی تھی۔ ملک کے داخلی سیاسی معاملے میں ایک عالمی طاقت کو ملوث کرنے پر سنجیدہ پاکستانی حلقوں کا ردعمل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 اپریل کو اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ میں بیان کیا۔ انہوں نے امریکا کو پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی شراکت دار قرار دیتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کی خواہش ظاہر کی۔ جنرل باجوہ نے یوکرین کے بارے میں روسی موقف کی حمایت کرنے سے بھی انکار کیا۔
بقول وجاہت مسعود اس سے واضح ہو گیا کہ اعلیٰ عسکری قیادت وزیراعظم کے خارجہ محاذ پر حالیہ اقدامات سے نہ صرف یہ کہ اتفاق نہیں کرتی بلکہ وزیراعظم کے فرمودات سے ملکی مفاد کو پہنچنے والے نقصان پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔

وجاہت بتاتے ہیں کہ اپریل شروع ہوتے ہی متحدہ حزب اختلاف 341 ارکان کے ایوان میں 174 ارکان کی باضابطہ اور 199 ارکان کی مجموعی حمایت ظاہر کر چکی تھی جبکہ دو اپریل کی شب عمران خان کے عشائیے میں قومی اسمبلی کے 140 ارکان شریک ہوئے تھے۔ ان حالات میں 3 اپریل کا دن نمودار ہوا جب قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہونا تھی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے وزیر قانون فواد چوہدری کو مائیک دیا، جنہوں نے ایک تحریری بیان پڑھتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو دستور کے آرٹیکل 95 کی بجائے آرٹیکل 5۔ اے کی روشنی میں دیکھنے کی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد ایک غیر ملکی سازش ہے اور کسی غیر ملکی طاقت کو پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اس کے جواب میں ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن کا موقف جاننے کی بجائے ایک لکھا ہوا کاغذ نکالا اور اسے تیزی سے پڑھتے ہوئے متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ ڈپٹی سپیکر روانی میں لکھی ہوئی رولنگ پڑھتے ہوئے سپیکر اسد قیصر کا نام بھی لے گئے جس سے معلوم ہو گیا کہ رولنگ پہلے سے لکھی جا چکی تھی اور قاسم سوری محض اسے پڑھ کر سنانے کا فرض ادا کر رہے تھے۔

ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے کہا کہ کسی غیر ملکی کو حق نہیں کہ وہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے، کسی غیر ملکی طاقت کو اختیار نہیں کہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرے۔ ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے سے انکار کرتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا۔

دوسری طرف تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے کے چند منٹ بعد وزیر اعظم عمران خان نے صدر عارف علوی کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دے دی۔ صدر علوی نے فوری طور پر تجویز منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ وزیر قانون فواد چوہدری نے ایک بیان جاری کیا کہ کابینہ تحلیل کر دی گئی ہے جبکہ آئین کی شق 224 کے تحت وزیر اعظم عمران خان اپنی ذمے داریاں جاری رکھیں گے۔
وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سے باہر ہونے والے واقعات کی آئینی حیثیت کا فیصلہ اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرنا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے دو ٹوک الفاظ میں قومی اسمبلی کی کارروائی سے اپنے ادارے کی لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ ۔

بقول وجاہت مسعود، صورت حال خاصی پیچیدہ ہے اور لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی ہے تاہم چند نکات قابل غور ہیں۔ حکومت کی طرف سے سامنے لائے گئے مبینہ سفارتی مراسلے کی اندرون ملک یا بیرونی ذرائع سے غیر جانبدار تصدیق نہیں ہو سکی۔ 2011 کے میمو گیٹ سکینڈل ہی کی طرح اس مراسلے کا بھی اپوزیشن سے تعلق ثابت شدہ نہیں ہے۔ حکومت نے مبینہ غیر ملکی سازش کے بارے میں عدالت سے رجوع نہیں کیا اور نہ ہی تین ہفتوں تک قومی سلامتی کے کسی پلیٹ فارم پر اسے پیش کیا۔ قومی اسمبلی کا دفتر تحریک عدم اعتماد کو باضابطہ قرار دے چکا تھا۔ تحریک عدم اعتماد کو ووٹنگ کے لیے پیش کرنے کے بعد اسے خلاف قاعدہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی ختم کرنے کا یک طرفہ اعلان نہیں کر سکتے۔ آرٹیکل 5 اے کے تحت ریاست سے غداری کا الزام ثابت کرنے کے لئے آئینی اور قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔ آئینی ماہرین کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی قانونی حیثیت برقرار ہے اور وزیراعظم کے خلاف اس تحریک کی موجودگی میں اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتیں۔

ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان کی سپورٹس مین سپرٹ کہاں گئی؟

وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ حکمران جماعت نے قومی اسمبلی میں اپنی شکست دیکھتے ہوئے تین بڑے خطرات مول لیے ہیں۔ پہلا یہ کہ ملک کے اندر سیاسی بحران کے نتیجے میں تعطل کا شکار معیشت اور ریاستی مشینری غیر معینہ مدت کے لیے مفلوج ہو گئی ہے۔ دوسرا خطرہ یہ کہ ملک کی داخلی سیاست میں غیر ملکی طاقتوں بالخصوص امریکا کو براہ راست ملوث کرنے سے پاکستان کے خارجہ مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ تیسرا خطرہ یہ ہے کہ ملکی تاریخ کے تناظر میں عدالت عظمیٰ سے فوری فیصلہ نہ آنے کی صورت میں ماورائے دستور مداخلت کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ کہ اگرچہ لمحہ موجود میں عمران خان اور ان کے حامی سازش کے نام پر بحران کی سازش کھڑی کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن وسیع تر تناظر میں یہ کشمکش بالآخر عمران خان کی ناکامی پر منتج ہو گی۔

How did General Bajwa deny Imran’s recent actions? | video

Related Articles

Back to top button