دندان سازعارف علوی آئین شکنی سے باز کیوں نہیں آ رہا؟


سابق وزیراعظم عمران خان اسٹیبلشمنٹ میں جنرل فیض حمید کے فوجی دھڑے اور آئین شکن صدر عارف علوی کی مدد سے موجودہ حکومت کے لیے مشکلات بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ حکومت کے لیے مشکل یہ ہے کہ صدر علوی کو عہدے سے ہٹانے کے لیے اسے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ ایسے میں صدر عارف علوی وفاق کے نمائندے کی بجائے عمران کے ٹٹو کا کردار ادا کرتے ہوئے صبح و شام گند ڈالتے نظر آتے ہیں۔ مسئلہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی حلف برداری کا ہو یا گورنر پنجاب کی فراغت کا، عارف علوی نے مسلسل آئین شکنی کی ہے اور اسی لئے صدر زرداری نے عارف علوی کو ایک آئین شکن دندان ساز قرار دے دیا ہے۔

اب سابق وزیراعظم عمران خان کا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھاتے ہوئے صدر عارف علوی نے چیف جسٹس عمر عطابندیال کے نام ایک خط میں زور دیا ہے کہ ‘حکومت تبدیلی کی سازش’ کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیں، حالانکہ عمران خان کی سازشی کہانی کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی اورسپریم کورٹ سختی سے رد کر چکی ہے۔ صدر عارف علوی نے چیف جسٹس کو خط عمران خان کی جانب سے دو ہفتے پہلے لکھے گئے اسی طرح کے ایک خط کے بعد لکھا ہے۔ ایوان صدر کے مطابق صدر نے خط میں کہا کہ حکومت تبدیلی کی سازش کی تحقیقات اور سماعت کے لیے عدالتی کمیشن کی سربراہی ترجیحی طور پر چیف جسٹس کو خود کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی تاریخ میں سازشوں کے ذریعے حکومت تبدیلی کی کارروائیوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، اس طرح کی سازشوں کی بعد میں خفیہ دستاویزات عام کیے جانے پر تصدیق ہوئی۔ لیکن یہ خط لکھتے ہوئے شاید صدر علوی بھول گئے کہ سپریم کورٹ نے ان کی جانب سے وزیراعظم کی ایڈوائس پر نہ صرف اسمبلی توڑنے کا حکم غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا، بلکہ غیر ملکی سازش کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کو بھی غیر آئینی قرار دیا تھا۔ یوں سپر یم کورٹ عمران خان کا سازشی بیانیہ پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔

تاہم صدر نے اپنے خط میں اسی چیف جسٹس کو لکھا ہے کہ ملک میں ایک سنگین سیاسی بحران منڈلا رہا ہے، ملک کو سیاسی و معاشی بحران سے بچانے اور صورت حال مزید بگڑنے سے روکنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعات کے تناظر میں پاکستان کے عوام میں بڑی سیاسی تفریق پیدا ہورہی ہے، تمام اداروں کا فرض ہے کہ ملک کو مزید نقصان اور بگاڑ سے بچانے کے لیے بھرپور کوششیں کریں۔ صدر نے کہا کہ افسوس کہ تبصرے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیے جا رہے ہیں، غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں، مواقع ضائع ہو رہے ہیں، کنفیوژن پھیل رہی ہے، معیشت بھی بحران میں ہے۔

چیف جسٹس کو خط میں انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قومی سلامتی، سالمیت، خودمختاری اور مفاد عامہ کے معاملات میں عدالتی کمیشن تشکیل دیا۔ انہوں نے کہا کہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی انکوائری چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے کی، میمو گیٹ معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے لیے ایک فعال جوڈیشل کمیشن موجود ہے، سربراہی سپریم کورٹ کے جج کررہے ہیں۔ صدر نے کہا کہ وزیراعظم نے بھی کمیشن کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن کو معاملے کی تحقیقات قانون کی تکنیکی بنیادوں پر نہیں بلکہ انصاف کی اصل روح کے مطابق کرنی چاہیے، یہ ہمارے ملک کی بہت بڑی خدمت ہو گی، پاکستانی عوام قومی اہمیت کے معاملے پر وضاحت کے مستحق ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میری رائے ہے کہ ریکارڈ شدہ حالات و واقعات پر مبنی شواہد نتائج کی طرف لے جا سکتے ہیں۔صدر مملکت نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ درخواست ہے کہ جوڈیشل کمیشن مبینہ سازش کے معاملے کی مکمل تحقیقات کرے۔ یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے برطرف کیے جانے کے بعد سے عمران خان نے شہباز شریف حکومت کو ‘امپورٹڈ’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان کے اتحادی اور بیس سے زائد ممبران قومی اسمبلی ان کا ساتھ چھوڑ گئے جس وجہ سے وہ اقتدار سے فارغ ہو گئے۔ لیکن ایک مکار سیاستدان کی طرح عمران خان نے اپنی اس فراغت کو امریکی سازش کا رنگ دیتے ہوئے شہباز حکومت کو امپورٹڈ قرار دے دیا۔ دوسری جانب فوجی ترجمان اور شہباز حکومت بار بار عمران خان کے اس سازشی بیانیے کو مسترد کر چکی ہے۔

14 اپریل کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے۔ پھر 22 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کے جلاس میں امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی جس کے دوران بتایا گیا عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی۔

Related Articles

Back to top button