فوری الیکشن نہ کروانے اورعمران کو بھگا کر تھکانے کا فیصلہ


لندن میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت مسلم لیگی قیادت کے اجلاس کے بعد آصف زرداری کے اس موقف سے اتفاق کیا گیا ہے کہ فوری الیکشن سے حکمران اتحاد کو فائدے کی بجائے نقصان ہو گا اور ملکی مسائل میں کمی کےبجائے اضافہ ہو جائے گا۔ چنانچہ طے پایا ہے کہ عمران کو بھگا کر تھکایا جائے اور ضروری الیکٹورل ریفارمز کے بعد نئے الیکشن اگلے برس ہی کروائے جائیں کیونکہ تب تک عمران خان کی امپورٹڈ حکومت مخالف مہم بھی دم توڑ چکی ہو گی۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے نصف درجن سے زائد وزرا جب 11 اپریل کو لندن پہنچے تھے تو انکا کہنا تھا کہ ملک کو درپیش سیاسی، معاشی اور آئینی بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے نواز شریف کے ساتھ اہم مشاورت ہو گی اور ’بڑے فیصلے‘ کیے جائیں گے۔ اس سے پہلے خواجہ محمد آصف اور اسحاق ڈار یہ اشارہ دے چکے تھے کہ موجودہ معاشی بحران کا سامنا کرنے کی بجائے فوری الیکشن کی طرف جایا جائے۔ لیکن وزیرِ اعظم، ان کی کابینہ کے ارکان، نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان طویل ترین ملاقاتوں کے بعد کوئی بڑا فیصلہ سامنے نہ آ پایا۔ ان ملاقاتوں سے پہلے یہ اطلاع تھی کہ شاید نواز شریف نے اپنی جماعت کے وزیراعظم کو جلد نئے الیکشن پر آمادہ کرنے کے لیے لندن طلب کیا ہے۔ تاہم شنید ہے کہ شہباز شریف کے پاس فوری الیکشن نہ کروانے کے حق میں زیادہ وزنی دلائل تھے جنکی بنیاد انفارمیشن پر تھی۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ اب حکومت کے لیے عمران خان کی ناکامیوں کا ٹوکرا اپنے سر سے فوری اتارنا ممکن نہیں اور اگر ایسا کیا گیا تو فائدے کی بجائے زیادہ نقصان ہو جائے گا۔ اس امکان کا اظہار بھی کیا گیا کہ فوری الیکشن کروانے کی صورت میں عمران خان دوبارہ برسر اقتدار آ کر اپنی مرضی کا آرمی چیف بھی تعینات کر سکتے ہیں۔ شہباز شریف کا موقف تھا کہ نئے انتخابات کروانے کا مطلب عمران خان کا مطالبہ پورا کرنا ہوگا لہذا بہتر یہی ہوگا کہ اقتدار میں رہتے ہوئے ریاستی کنٹرول حاصل کیا جائے اور ضروری الیکٹورل ریفارمز کے بعد ہی اگلے برس نئے الیکشن کی طرف جایا جائے۔

یاد رہے کہ لندن اجلاس سے ایک روز پہلے سابق صدر آصف زرداری نے فون پر نوازشریف سے گفتگو کی تھی جس کے بعد انہوں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ میاں صاحب اور انکا ضروری الیکٹورل ریفارمز کروائے بغیر نئے الیکشن نہ کروانے پر اتفاق ہے۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ فوری الیکشن کروا کر بھی معاشی بحران سے نکلنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ لندن میں دو روز مسلسل بحث کے بعد اب یہ اطلاعات ہیں کہ نواز شریف کی زیر صدارت فوری الیکشن نہ کروانے کے موقف سے اتفاق کیا گیا ہے۔ لندن اجلاس میں کیا فیصلے ہوئے، اس حوالے سے کسی حکومتی وزیر کے پاس کچھ خاص کہنے کو نہیں اور صرف یہی بتایا جا رہا ہے کہ عمران خان نے جو ’گند‘ پھیلایا ہے اس کو صاف کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

یہ ملاقاتیں ایک ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب پاکستان میں عمران خان جلد الیکشن کروانے کے لیے ایک ملک گیر مہم چلا رہے ہیں، پاکستان کی معاشی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور ملک کے پاس بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے مطالبات ماننے کے علاوہ بظاہر کوئی راستہ نہیں۔ حکومت بھی ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اب تک کوئی مؤثر حکمتِ عملی وضع نہیں کر پائی ہے۔ حکومت میں شامل بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری نے واضح کیا ہے کہ فوری الیکشن نہیں کروائے جانے چاہییں۔ مسلم لیگ (ن) کے بیشتر رہنما بھی اس کے حق میں نظر آتے ہیں لیکن پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے ایبٹ آباد ایک جلسے میں کہا کہ اُن کی جماعت کو ’عمران خان کا چھوڑا ہوا گند‘ صاف نہیں کرنا چاہیے بلکہ جلد انتخابات کروانے کی طرف جانا چاہیے۔اسحاق ڈار بھی اسی طرح کی باتیں کر رہے ہیں اور اسی لئے نواز شریف نے شہباز شریف کو لندن بلایا تھا۔ بظاہر مسلم لیگ (ن) اس معاملے پر کنفیوژن اور تقسیم کا شکار نظر آتی تھی۔

11 اپریل کی صبح سے مرکزی لندن کے فائیو سٹار ہوٹل حیات ریجنسی، دی چرچل کے باہر پاکستانی میڈیا کے صحافیوں نے ڈیرہ ڈال دیا تھا۔ پاکستان سے آئے ہوئے بیشتر وزرا اسی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ لیکن صحافیوں کو اب تک یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ملاقات کہاں ہے اور کب میڈیا سے بات ہو گی۔ صحافیوں کو بس ایک امید تھی کہ دن کے کسی وقت حکومت کے یہ کرتا دھرتا صبح سے انتظار کرتے ان صحافیوں پر رحم کھا کر بات کرلیں گے۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کل کہا تھا کہ میڈیا بریفنگ دی جائے گی۔ ہوٹل کے باہر کھڑے صحافیوں نے ایک بجے کے قریب جب یہ دیکھا کہ وزرا ایک ایک کر کے مرسیڈیز گاڑیوں میں سوار ہو کر روانہ ہو رہے ہیں تو ان میں بے چینی پھیل گئی تھی۔ 12 اپریل کو بھی ایسا ہوا تھا کہ مسلم لیگ نون نے صحافیوں کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی کہ وہ نواز شریف سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور سٹین ہوپ ہاؤس دفتر، جہاں ان کی عموماً ملاقاتیں ہوتی ہیں، کے بجائے اسحاق ڈار کے گھر پر ملاقات کر رہے ہیں۔

ویسے لندن میں اس قدر رازداری پر مسلم لیگ (ن) مجبور بھی لگتی ہے کیونکہ تحریکِ انصاف کے حامیوں نے ان کی زندگی دوبھر کر رکھی ہے۔ ہر آئے دن پی ٹی آئی کے حامی شریف خاندان سے منسلک پتوں پر جمع ہو کر عمران خان کی حمایت میں اور ’چور چور‘ کے نعرے بلند کرتے رہتے ہیں۔ 12 اپریل کو دونوں جماعتوں کے حامیوں کے درمیان ایک بڑا آمنا سامنا ہوا جو لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے بڑی کامیابی سے پرامن رکھا۔ تاہم جب بالآخر حکومتی وزرا کا صحافیوں سے آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے کسی سوال کا واضح جواب نہیں دیا۔

کور کمانڈر پشاور جنرل فیض حمید کے بارے میں سیاست دانوں کے بیانات پر فوج کے ردِ عمل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سول پر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’ہمارے قائد نواز شریف کا تو بیانیہ ہی یہی ہے کہ ادارے سیاست میں ملوث نہ ہوں اور ان کو سیاست میں نے گھسیٹا جائے۔‘ اُنھوں نے فوج اور عدلیہ کے حالیہ کردار کی تعریف کی اور کہا کہ وہ بلکل آزاد اور غیر جانبدار کردار ادا کر رہے ہیں۔

احسن اقبال نے بھی فوج اور اداروں کا بھرپور دفاع کیا اور کہا کہ عمران خان جو ان اداروں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اُنھوں نے سابق وزیرِ اعظم کے بارے میں کہا کہ وہ ’پاکستان مخالف تحریک‘ چلا رہے ہیں۔ وزرا ایک ایک کر کے سابق حکومت پر تمام خرابیوں کا الزام عائد کرتے رہے لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ اُنھوں نے ان دو دنوں میں بحث کے بعد کیا طے کیا ہے۔ ان سے بار بار پوچھا کہ حالات بہتر کیسے ہوں گے اور حکومت کی معاشی اور سیاسی حکمت عملی کیا ہے، لیکن احسن اقبال نے محض یہ کہا کہ جو حکمت عملی طےہوئی ہے وہ آنے والے دنوں میں آپ دیکھیں گے اور تمام فیصلے مشترکہ مشاورت سے ہوں گے۔

بظاہر لگ رہا تھا کہ سابقہ اپوزیشن اور آج کی حکومت کے لیے عمران خان کو شاید اقتدار سے الگ کرنا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا اب ملک کو ’صحیح ڈگر‘ پر لانا ہے۔ تاہم لیگی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ لندن اجلاسوں میں فوری طور پر الیکشن نہ کروانے اور عمران خان کو بھگا کر تھکانے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔

Related Articles

Back to top button