سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے کونسا طریقہ زیادہ سود مند ہے؟

پاکستان کے مختلف علاقوں میں طوفانی بارشوں سے آنے والے سیلاب کی آفت میں گھرے متاثرین کی مدد کرنا اس وقت حکومت، فوج اور تمام امدادی اداروں کی اولین ترجیح ہے، اس موقع پر عام افراد بھی امدادی رقوم، کھانے پینے کی اشیا اور دیگر سامان کے عطیات دے کر اس کار خیر میں پورا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حکومتی اداروں کے مطابق خصوصاً پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ہزاروں گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، بے گھر ہونے والے افراد کی ایک بڑی تعداد یا تو عارضی طور پر لگائے گئے خیموں میں مقیم ہے یا کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہے۔ اس قدر بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی کے پیشِ نظر حکومت نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا ہے، فوج کو ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن میں حصہ لینے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، سیلاب زدگان کی امداد کیلئے بڑے پیمانے پر اشیائے خورد و نوش، ادویات اور خیموں وغیرہ کی ضرورت ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے صورتحال سے نمٹنے کیلئے عوام سے متاثرہ افراد کی امداد کرنے کی اپیل کی ہے۔

حکومت کے مطابق عوام براہِ راست یا حکومتی اداروں کے ذریعے یہ امداد متاثرین تک پہنچا سکتے ہیں، پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر لوگ یہ سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاہم انھیں اس کے لیے صحیح طریقہ معلوم نہیں ہے۔ یا پھر متاثرین کو اس وقت پیسوں سے زیادہ براہِ راست کھانے پینے کی اشیا اور سر چھپانے کے لیے خیموں وغیرہ کی ضرورت ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس قسم کی امداد متاثرین تک کیسے پہنچائی جائے؟ کیا اس کے لیے خود سے متاثرہ علاقوں کی طرف سفر کرنا مناسب ہے یا پھر کسی ادارے کی مدد لی جائے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے سید طارق لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں اور ان کی تحقیق کا موضوع ڈزاسٹر مینجمنٹ آپریشنز ہیں نے سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کرنے کے حوالے سے طریقہ کار پر ٹوئٹر پر ایک معلوماتی پوسٹ بھی لگائی، اور بتایا کہ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو کھانے کے اشدضرورت ہے اس لیے انھیں پکا پکایا کھانا بھجوانا چاہئے، پکے پکائے کھانے کا سیلاب متاثرین کو زیادہ فائدہ نہیں ہوگا، یہ کھانا ان تک پہنچانا بھی مشکل ہے۔ طارق کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کو یہ مشورہ نہیں دیں گے کہ اگر وہ سیلابی علاقوں یا آفات والے علاقوں میں کام کرنے کا تجربہ نہیں رکھتے تو وہ خود یہ سامان لے کر وہاں جائیں۔اگر آپ ٹرک پر یہ سامان لے کر جانا چاہتے ہیں تو اس کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اگر آپ ٹرک میں زیادہ وزن ڈال دیں اور وہ اس علاقے میں پھنس جائے تو وہ الٹا زحمت بن جائے گا۔

طالبان حکومت نے امریکی ڈرونز کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی

طارق کے خیال میں بہتر یہ ہوگا کہ کسی قابلِ اعتبار اور تجربہ کار تنظیم کا انتخاب کیا جائے، وہ تنظیم یہ بھی بتا سکے گی کہ متاثرین کو کس سامان کی ضرورت ہے، بہتر یہ ہے کہ آپ خود سامان خریدنے کے بجائے انھیں نقد عطیات دے دیں تا کہ وہ تھوک میں سستے داموں زیادہ سامان خرید سکیں، اس بات کا فیصلہ آپ کو خود کرنا ہوگا کہ آپ کس تنظیم پر بھروسہ کر سکتے ہیں اور کس پر نہیں، اس کے علاوہ آپ خود بھی کئی طریقوں سے مانیٹرنگ کر سکتے ہیں کہ آپ کا پیسہ صحیح جگہ پہنچایا نہیں، بیرسٹر منصور شاہ کے خیال میں اگر کوئی شخص انفرادی طور پر یا گروپس کی صورت میں خود متاثرہ علاقوں میں جانا چاہتا ہو تو اس کو چاہیے کہ کسی تجربہ کار شخص یا تنظیم کی مدد حاصل کرے۔

محقق سید طارق کے مطابق اگر آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ کو خود اس علاقے میں جا کر امداد پہنچانی ہے یا متاثرین کی مدد کرنی ہے تو وہاں جانے سے پہلے مکمل طور پر اپنی حکمتِ عملی پہلے سے تیار کر لیں، آپ وہاں کام کرنے والی این جی اوز یا سرکاری اداروں سے رابطہ کریں اور ان کے بعد اپنا پلان ترتیب دیں۔ اس کے بعد ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں۔ ہو سکتا جو سڑک آپ نے صبح استعمال کی تھی وہ دوپہر تک سیلاب میں بہہ گئی ہو۔ اُن کا کہنا تھا کہ مقامی افراد یا گروپس کی مدد حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ وہ علاقے سے بخوبی واقف ہوتے ہیں، ایسے علاقوں میں اکیلے نہ جائیں بلکہ جب بھی سفر کریں تو کاروان کی صورت میں سفر کریں، جو شخص انفرادی حیثیت میں مدد کرنا چاہتے ہوں، ان کے پاس بہت سے طریقے موجود ہیں جن میں اسے خود متاثرہ علاقے میں جانے کی ضرورت بھی نہیں ہے، آپ اپنے ٹائم کے ذریعے مدد کر سکتے ہیں، آپ ایسے گروپس بنا سکتے ہیں جو امدادی سامان جمع کریں یا سیلاب متاثرین کی مشکلات کے حوالے سے لوگوں کو مسلسل آگاہ کرتے رہیں۔ طارق کے مطابق ایسے افراد جن کے پاس سپلائی چین بنانے کے وسائل موجود ہوں وہ امدادی سامان کی متاثرہ علاقوں میں مؤثر ترسیل کو یقینی بنا سکتے ہیں، اس طرح ایک ایسی چین بن جائے گی جس میں امدادی سامان جمع بھی ہو رہا ہوگا اور ساتھ ہی ترسیل بھی جاری رہے گی۔

Related Articles

Back to top button