لاہوریوں کے بجلی میٹر چوری کرنیوالا گینگ کس کا ہے؟

لاہور میں بجلی کے میٹر چوری کرنے والا گینگ پولیس کے قابو سے باہر ہوگیا ہے، میٹر چوری کرنے والا گینگ لاہوریوں سے بھتہ وصول کرتا ہے اور پھر میٹر واپس بھی کر دیتا یے، پولیس کو یہ گینگ ٹریس کرنے میں تاحال کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

یاد رہے کہ لاہور کے بیشتر علاقوں کے رہائشی رات کے اوقات میں بجلی آنے کا انتظار کرتے ہیں لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بجلی واپس آنے کے باوجود ان کے گھر میں اندھیرا رہتا ہے۔ جب وہ وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ انکا تو بجلی کا میٹر ہی غائب ہو چکا ہے، سینکڑوں شکایات موصول ہونے کے باوجود پولیس اس گینگ کا سراغ لگانے میں ناکام ہے جس کی وجہ ’’واٹس ایپ‘‘ بتائی جا رہی ہے۔

نوین احمد لاہور کے علاقے نیو مسلم ٹاؤن کے رہائشی ہیں، پچھلے ہفتے علی الصبح جب انکے گھر کی بجلی اچانک بند ہوئی تو انہوں نے اسے غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ سمجھا، جب ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی بجلی نہ آئی تو انہیں تشویش لاحق ہوئی، وہ گھر سے باہر نکلے تا کہ چیک کرسکیں کہ بجلی ٹرانسفارمر خراب ہونے کی وجہ سے تو بند نہیں ہوئی۔ اس دوران ان کی نظر اپنے گھر کے سامنے والے کھمبے پر پڑی تو پتہ چلا کہ وہاں بجلی کا میٹر سرے سے موجود ہی نہیں تھا، اس دوران ان کے ہمسائے بھی باہر نکل آئے۔ دیکھا تو انکا بھی میٹر غائب ہو چکا تھا اور کھمبے پر ایک موبائل نمبر کاغذ پر لکھا ہوا ٹنگا تھا جس پر رابطہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

نوین اور انکے ہمسایوں نے باری باری واٹس ایپ نمبر پر رابطے کیے تو بتایا گیا کہ اگر فی میٹر 15000 روپے ایک ایزی پیسہ نمبر پر بھیجے جائیں تو میٹر واپس مل جائیں گے۔ لیکن نوین نے بلیک میل ہونے کی بجائے پولیس کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ایف آئی آر کٹوا دی۔ یوں پولیس نے میٹر چوروں کو ٹریس کرکے گرفتار کر لیا۔ مسلم ٹاؤن لاہور میں ایسے درجنوں واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ ایک بینک کیشئیر ساجد علی نے بتایا کہ جب میرا میٹر چوری ہوا تو رات کا وقت تھا، مجھے اپنے میٹر کی جگہ ایک واٹس ایپ نمبر کاغذ پر لٹکا ملا۔ رابطہ کیا تو مجھے کہا گیا کہ 10000 ایزی پیسہ کروا دو۔ پہلے میں نے پولیس میں درخواست دی، اس کے بعد لیسکو کو نیا میٹر لگوانے کے لیے ایک اور درخواست دی لیکن ناکامی کے بعد میں نے چوروں کو پیسے دے کر ہی میٹر واپس لینے میں عافیت جانی۔ ساجد کے مطابق واٹس ایپ پر دیئے گئے نمبر پر پیسے بھجوانے کے بعد مجھے بتایا گیا کہ میرے گھر کے قریب ہی نہر کنارے ایک جگہ پر میٹر زمین کھودنے سے مل جائے گا، مجھے اس جگہ کی نشاندہی بھی کی گئی۔ میں وہاں گیا اور کھدائی کی تو میٹر مل گیا، علاقہ پولیس کا کہنا ہے کہ مجرمان کو گرفتار کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ وہ جو واٹس ایپ نمبر استعمال کرتے ہیں ان کے نمبر غیر قانونی ایکسچینجز یا انٹرنیٹ سے لیے جاتے ہیں، لہٰذا پولیس کے پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں کہ انکو ٹریس کیا جا سکے۔

لاہور میں بجلی کی تقسیم کار کپمنی لیسکو کے ترجمان رانا افضل کہتے ہیں کہ اس طرح کے گروہ کافی عرصے سے سرگرم ہیں، میں کہوں گا کہ یہ کوئی نوسرباز ٹائپ کے لوگ ہیں جو اپنا طریقہ واردات وقتاً فوقتاً بدلتے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی لوگوں کے میٹر چوری ہونے کی شکایات آتی رہتی ہیں لیکن ان میں طریقہ واردات مختلف ہوتا تھا۔ کئی واقعات میں تو میٹر ریڈر خود ملوث پائے گئے، ہمیں جیسے ہی میٹر چوری کی شکایت ملتی ہے ہم نیا میٹر لگانے کا عمل شروع کر دیتے ہیں جو ایک دو روز میں مکمل ہو جاتا ہے، ہم نے اس کے لیے کچھ فیس بھی رکھی ہے جو معمولی ہے کہ کہیں لوگ خود ہی میٹر اتار کر نیا میٹر لگانے کی درخواست نہ دے دیں کیونکہ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں۔

اس منظم گینگ کا طریقہ واردات اتنا موثر ہے کہ ایک تو وہ صرف قدرے پوش علاقوں میں یہ کام کر رہے ہیں دوسرا وہ اس نفسیاتی پہلو کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں کہ جس گھر کا میٹر اتارا گیا ہے وہ کتنی دیر بجلی کے بغیر رہ سکتے ہیں۔ لیسکو کو فیس دے کر نیا میٹر لگانے کیلئے جتنا وقت درکار ہے، اس سے کم وقت میں ان کو پہلا میٹر واپس مل سکتا ہے۔ اس طرح یہ گینگ بارگین بھی کرتا ہے، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہا میٹر چوری کرنیوالے افراد الگ الگ ہیں جن کا رابطہ نمبر دیا جاتا ہے، وہ الگ اور جن کے نمبروں پر پیسے منگوائے جاتے ہیں، وہ الگ جگہ بلکہ الگ شہر میں بھی ہو سکتے ہیں۔

Back to top button