اعظم سواتی کا لمبے عرصے تک جیل میں رہنے کا امکان

اسلام آباد کی ایک عدالت کی جانب سے ضمانت کی کوشش مسترد ہونے کے بعد فوجی قیادت کے خلاف متنازع ٹویٹس کرنے اور عمران خان کے پہلو میں کھڑے ہو کر فوج کے خلاف تقریریں کرنے والے تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی لمبے عرصے کیلئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ 21 دسمبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کی درخواست ضمامنت مسترد کردی۔ اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے اسپیشل جج اعظم خان نے درخواست پر سماعت کی۔ کیس کے پراسیکوٹر رضوان عباسی نے اعظم سواتی کی درخواستِ ضمانت پر حتمی دلائل دیے اور ٹوئٹر پر اکاؤنٹ کی تصدیق یعنی بلیو ٹک کا طریقہ کار بتایا اور کہا کہ اکاؤنٹ اعظم سواتی کا ہی ہے۔
یاد رہے کہ اعظم سواتی کی جانب سے کی گئی ٹوئٹ میں سابق آرمی چیف کا نام لیا گیا تھا۔ یہ ٹوئٹ وزیر اعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے منی لانڈرنگ کیس میں بری ہونے کے بعد کی گئی تھی۔ ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ‘باجوہ صاحب، آپ کو اور آپ کے کچھ لوگوں کو مبارکباد، آپ کا منصوبہ واقعی کام کر رہا ہے اور ملک کی قیمت پر تمام مجرم آزاد ہو رہے ہیں، ان ٹھگوں کی آزادی سے، آپ نے کرپشن کو جائز قرار دے دیا، اب آپ اس ملک کے مستقبل کی کیا پیش گوئی کرتے ہیں؟’
کیس کے پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے 21 دسمبر کو عدالت میں کہا کہ سینیٹر اعظم سواتی کے اکاؤنٹ پر بلیو ٹِک ہے، انہیں مشہور شخصیات نے فالو کیا ہوا ہے۔استغاثہ نے دلائل دیے کہ اعظم سواتی کو فالو کرنے والی مشہور شخصیات میں سیاستدان اور صحافی بھی شامل ہیں اور اعظم سواتی کبھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے انکاری نہیں ہوئے۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹوئٹر اکاؤنٹ اعظم سواتی کا نہیں۔ وکیل نے کہا کہ اس اکاؤنٹ پر اعظم سواتی نے افواجِ پاکستان کے خلاف ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
پراسیکیوٹر رضوان عباسی اور سرکاری وکیل نے اعظم سواتی کی درخواستِ ضمانت کی مخالفت کی۔ تاہم اعظم سواتی کے وکیل سہیل خان نے دلائل دیے کہ ٹوئٹس کے اسکرین شاٹس پر سائبر کرائم کا مقدمہ نہیں بنتا۔پراسیکوٹر نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل نے دلائل کے دوران ایک بار نہیں کہا کہ ٹوئٹر اکاؤنٹ اعظم سواتی کا نہیں۔ اعظم سواتی کے وکیل نے کہا کہ سکرین شاٹس کی بنیاد پر کیس بنایا گیا ہے۔ دونوں فریقین کے حتمی دلائل سننے کے بعد عدالت نے سینیٹر اعظم سواتی کی درخواستِ ضمانت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی نے ایک ہی جرم دو بار کیا ہے لہذا وہ ضمانت کے حقدار نہیں بنتے۔
یاد رہے کہ 27 نومبر 2022 کو تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل بھی انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ایف آئی اے کی جانب سے سابق وفاقی وزیر کے خلاف پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔ ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔ ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اعظم سواتی اس کیس میں بری طرح پھنس گئے ہیں اور اب کافی عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاریں گے۔