کپتان پراجیکٹ عمران کے خاتمے میں سہولتکارکیسے بنے؟

‘پراجیکٹ عمران’ کو ختم کرنے کا فیصلہ تو بہت پہلے ہوچکا تھا مگر اب اس کا عملی آغاز ہونے جارہا ہے۔ طاقتور حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان نے پاکستانی سیاست، معیشت اور ریاستی ستونوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ آج پاکستانی معیشت جس حال میں ہے، یہ سب ان کا اور ان کی ٹیم کا کیا دھرا ہے۔ بجائے اس کے کہ ‘پراجیکٹ عمران’ کو لپیٹنے کے لئے دو صوبائی حکومتوں سے ٹکر لینا پڑتی، عمران نے فیصلہ سازوں کا کام خود آسان کر دیا اور دو حکومتوں کی حفاظتی شیلڈ چھوڑ کر اقتدار سے باہر آگئے۔ پنجاب میں پرویز الٰہی کی جگہ محسن نقوی کی بطور نگران وزیر اعلی ٰتعیناتی کے بعد خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوتی چلی جارہی ہیں، لہذا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب تحریک انصاف کو کبھی حکومت نہیں ملی گی۔

ان خیالات کا اظہار معروف صحافی حذیفہ رحمان نے روزنامہ جنگ کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ جیسے اسٹیبلشمنٹ نے دن رات ایک کرکے عمران کو مقبولیت دلوائی اور پھر وزیراعظم بنوایا اب ویسے ہی انہیں واپس ان کی پرانی جگہ پر لایا جائے گا۔ جو کچھ عمران خان کو لانے کے لئے ان کے مخالفین کے ساتھ کیا گیا، اب اسی مکافاتِ عمل کا سامنا عمران کو خود بھی کرنا ہے۔ پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے زوال کا آغاز ہونے والا ہے۔ ضدی عمران نے اپنا یہ نقصان خود کیا ہے۔ اب شاید آئندہ کبھی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومت تحریک انصاف کو نصیب نہ ہوسکے بلکہ اب عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہونے جارہا ہے۔ معیشت کو ٹریک پر لانا فیصلہ سازوں کی اولین ترجیح ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی بھی سیاسی جماعت کو ملکی معیشت مزید خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جو خرابیاں اور غلطیاں عمران دور میں کی گئی ہیں، انہیں عملی اقدامات سے درست کیا جائے گا۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ مکمل نیوٹرل رہنا چاہتی ہے مگر جو غلطیاں پراجیکٹ عمران لانچ کرنے اور اسکو کامیاب کروانے کے دوران کی گئیں ان کا مداوا کیا جائیگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دیا جائیگا مگر اب عمران سمیت کسی کو بھی فاؤل پلے کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی کہ وہ اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے معیشت کو نقصان پہنچائے۔

حذیفہ رحمان کہتے ہیں کہ ریاست کو گزشتہ چار سال میں کیسے کھوکھلا کیا گیا، اس حوالے سے عوام کے سامنے تمام حقائق لائے جائینگے۔ پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف کی چار سالہ حکومت نے جو بھی کرپشن کی ہے، اس کا مکمل احتساب کیا جائے گا اور چوہدری پرویز الٰہی کے علاوہ عثمان بزدار کا بھی محاسبہ ہوگا۔ حذیفہ کہتے ہیں کہ عمران خان غیر سیاسی سوچ کے حامل سیاستدان ہیں اور اپنی سیاست کو ہمیشہ ضد اور انا کی بھینٹ چڑھاتے آئے ہیں۔ انہوں نے 2008 سے آج تک ہمیشہ غیر ہی جمہوری فیصلے کئے ہیں، جن کا سب سے بڑا نقصان عمران خان کو خود اٹھانا پڑا۔ انہوں نے جب پہلی بار 2008 میں بائیکاٹ کا راستہ اختیار کیا تو اس فیصلے سے تحریک انصاف پانچ سال کیلئے سیاسی و پارلیمانی عمل سے مکمل طور پر باہر ہوگئی۔۔اسی طرح 2014 کے دھرنے کے نتیجے میں عمران کے ہاتھ تو کچھ نہ آیا البتہ موصوف نے اپنی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ 2018 سے 2022 تک عمران خان وزیراعظم رہے مگر اپنی ضد اور انا کی وجہ سے نقصانات اٹھاتے رہے۔ جنرل فیض اور جنرل باجوہ کی بھرپور سپورٹ کے باوجود عمران خان کامیاب وزیراعظم نہ بن سکے، پنجاب کے حوالے سے جنرل باجوہ نے بہت کوشش کی کہ عمران خان اپنے لاڈلے بزدار کو ہٹا دیں مگر انکی ضد اور اناء یہاں بھی آڑے آتی رہی۔ لیکن اسکے باوجود پاکستان کی طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ کی غیر آئینی سپورٹ سے عمران حکومت چلتی رہی، جوں ہی طاقتور فیصلہ سازوں نے ہاتھ کھینچا، عمران حکومت کا زوال شروع ہوگیا۔ یعنی عمران کے پاس ایسی کوئی سیاسی فہم و فراست نہیں تھی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بغیر چند ماہ بھی حکومت چلا سکتے۔

حذیفہ رحمان کہتے ہیں کہ مبینہ امریکی سازش کا بیانیہ بھی کسی کے ’’فیض‘‘کا ثمر تھا۔ برطرفی کے بعد چند ماہ میں عمران خان کی مقبولیت کو آسمان تک پہنچانے کے پیچھے بھی وہی دماغ کار فرما تھے۔ بہرحال عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کا غیر سیاسی فیصلہ کرکے اپنے مخالفین کام آسان کر دیا حالانکہ پراجیکٹ عمران ختم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی دو صوبائی حکومتیں تھیں۔ دو صوبوں میں بھاری مینڈیٹ کے ہوتے ہوئے عمران سے نبردآزما ہونا خاصہ مشکل تھا۔ پنجاب کو منی پاکستان کہا جاتا ہے۔ آبادی، رقبے اور وسائل کے لحاظ سے پنجاب دنیا کے کئی ممالک سے بڑا ہے۔ ایسے اہم صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہونا بہت غیر معمولی تھا۔ مگر عمران نے ہمیشہ کی طرح غیر سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے محض اپنی ضد اور اناءکی خاطر دو صوبائی حکومتوں کو قربان کردیا۔ اس سے پہلے موصوف نے قومی اسمبلی میں ڈیڑھ سو سے زائد سیٹیں ہونے کے باوجود ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی بجائے اپنے اراکین اسمبلی کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کیلئے قانون سازی کا تمام عمل آسان بنادیا۔ خان صاحب نے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور اپوزیشن لیڈر کے عہدے اپنے پاس رکھنے کے بجائے حکومت کی جھولی میں ڈال دئیے۔ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے 81 اراکین تحریک انصاف کے استعفے قبول کیے جانے کے بعد خان صاحب کو یہ خیال آیا ہے کہ انکے بچے کھچے باقی 46 اراکین کو اسمبلی میں واپس جاکر اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنا چاہیے۔ عمران خان کے یہ سب وہ احمقانہ فیصلے ہیں جو انہوں نے بغیر سوچے سمجھے کئے اور جن کی انہیں بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

زاہد اختر زمان چیف سیکرٹری، بلال کمیانہ سی سی پی لاہور تعینات

Related Articles

Back to top button