گلی میں کھیلنے والا جاوید میانداد سپر اسٹار کیسے بنا؟

کرکٹ سے جنون کی حد تک لگائو رکھنے والے 10 سالہ جاوید میانداد نامی بچے کو چھوٹی عمر کی وجہ سے صرف فیلڈنگ تک ہی محدود رکھا جاتا تھا، جاوید کو کرکٹ سے لگائو والد اور بڑے بھائی کی اس کھیل سے محبت کی وجہ سے ہوا، جاوید سکول سے چھٹی کے بعد اپنا بیگ دوستوں کو یہ کہہ کر دے دیتے کہ کل سکول ٹائم واپس لے لوں گا، یوں رفتہ رفتہ جاوید نے کرکٹ میں ایسی مہارت حاصل کی کہ اپنے والد اور بھائی بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

علی وزیر کو قومی اسمبلی میں آنے سے کون روک رہا ہے؟

یہ نومبر 1974 کی بات ہے جب سندھ اور پنجاب کی انڈر 19 ٹیمیں لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں قومی انڈر 19 کرکٹ چیمپئین شپ کا فائنل کھیل رہی تھیں۔ پہلے دن سندھ کی ٹیم نو وکٹیں گنوا چکی تھی لیکن اس کے سترہ سالہ کپتان سنچری بنا کر بدستور وکٹ کر ڈٹے ہوئے تھے اور ناٹ آؤٹ تھے۔ یہ نوجوان جاوید میانداد تھے جنھیں دنیا نے ایک عظیم بیٹسمین کے طور پر دیکھا، پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدر عبدالحفیظ کاردار سٹیڈیم میں اپنے کمرے سے نوجوان جاوید میانداد کو بیٹنگ کرتا دیکھ رہے تھے کہ میچ کے بعد میانداد کو اپنے پاس بلوایا اور کہا تم بہت اچھا کھیلے، بس اسی طرح کھیلتے رہو۔ کاردار نے اس تعریف کو صرف وہیں تک محدود نہیں رہنے دیا بلکہ اگلے دن کے اخبارات میں جاوید میانداد کو ’دہائی کی دریافت‘ قرار دیا۔
ہارون رشید پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں میں اور جاوید چرچ مشن سکول میں پڑھتے تھے، بچپن ہی سے جاوید میانداد غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل تھے، جب ہم ان کی بلڈنگ کی چھت پر کھیلا کرتے تھے تو انکے پڑوسی ہمارے شور سے پریشان ہوتے تھے۔ جاوید میانداد بتاتے ہیں کہ میں گلی میں کھیلنے والا سٹریٹ کرکٹر تھا، میرے والد کو یہ بات سخت ناپسند تھی کہ میں اپنی وکٹ جلد گنوا دوں، یہی سوچ میرے کوچ اے آر محمود کی بھی ہوتی تھی، انھوں نے مجھے سمجھایا کہ کون سا سٹروک کب کھیلنا ہے اور کب نہیں، میں اپنے بڑے بھائی بشیر میانداد کو کریڈٹ دوں گا کہ کرکٹ کی گیند سے میرا خوف ختم کیا اور اعتماد سے بیٹنگ کرنے کی خوب پریکٹس کرائی، میری عمر اس وقت دس سال تھی اور میرے ہاتھ میں صرف بیٹ ہوا کرتا تھا پیڈ یا گلوز نہیں ہوتے تھے، مجھے یاد ہے کہ مشتاق محمد نے مجھے اپنا انگلینڈ میں بنا ہوا کرکٹ بیٹ تحفے میں دیا تھا اور میرے والد کو کہا تھا کہ یہ لڑکا ایک دن پاکستان سے ضرور کھیلے گا۔

انڈیا کے سابق ٹیسٹ کرکٹر سنیل گاوسکر کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ جاوید کے دلچسپ واقعات مختلف ٹی وی شوز اور نجی محفلوں میں انھی کی آواز میں سُنا کر حاضرین کو محظوظ کرتے ہیں جن میں انڈین سپنر دلیپ دوشی کے ساتھ میانداد کی جملہ بازی قابل ذکر ہے۔سنیل گاوسکر نے اپنی کتاب idols میں جاوید میانداد کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے پہلی بار نوجوان جاوید میانداد کو 1975 کے عالمی کپ کے دوران لندن کے ہوٹل کی لابی میں دیکھا تھا جب انگریزی پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے انھیں چائنیز ریسٹورنٹ تک جانے میں دشواری ہو رہی تھی۔ گاوسکر کہتے ہیں کہ انڈین ٹیم نے 1979 کے دورۂ بھارت میں ظہیر عباس کو قابو کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کر رکھی تھی لیکن جاوید میانداد کے لیے اس طرح کی حکمت عملی وضع کرنا مشکل تھا کیونکہ وہ بہت ورسٹائل کرکٹر تھے۔
جاوید میانداد کہتے ہیں ’بیٹنگ ہو یا فیلڈنگ میں ُچپ نہیں رہتا تھا اور بولتا رہتا تھا۔ آسٹریلوی ٹیم یہاں آئی ہوئی تھی۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق بیٹنگ کے دوران آسٹریلوی کرکٹرز سے بات کرنے کی کوشش کی تو ڈیوڈ بون اور دوسرے کھلاڑیوں نے منہ پھیر لیے، وہ بتاتے ہیں کہ ’ڈین جونز سے میری اچھی دوستی تھی، وہ ایک میچ پہلے تک مجھ سے بات کر رہے تھے لیکن پھر وہ بھی خاموش نظر آئے تو میں نے لاہور سے کراچی کی فلائٹ کے دوران ان سے پوچھا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ ڈین جونز نے جواب دیا کہ جب میں نے تم سے بات کی تھی تو مجھ پر میری ٹیم نے جرمانہ عائد کر دیا کیونکہ ہم سب نے میٹنگ میں یہ طے کیا تھا کہ میانداد کی کسی بات کا جواب نہیں دینا ہے کیونکہ وہ ہماری توجہ ہٹا دیتا ہے اور اپنا ٹارگٹ حاصل کر لیتا ہے۔

Related Articles

Back to top button