ڈار کی اکنامکس حکومتی جگ ہنسائی کا باعث کیسےبنی؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کی ہائیبرڈ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں نے پاکستانی معیشت کو جس بری طرح تباہ کیا ہے کہ اسکے بعد اب موجودہ حکومت کے لیے اسے سنبھالنا مشکل تر ثابت ہورہا ہے۔ رہی سہی کسر موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پوری کر دی ہے۔ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام آدمی کو تباہی اور بربادی کے جس دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، اسکا اندازہ شاید حکمرانوں کو ہے ہی نہیں۔ اب تو پوری دنیا کے میڈیا نے پاکستان کی افسر شاہی کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور حکومت کی عیاشیوں پر انگلی اٹھانا شروع کر دی ہے۔ برانڈڈ سوٹ، قیمتی گاڑیاں، بیرون ملک علاج، رہائش،پٹرول اور کچن، سب سرکار کے خرچے پر۔۔ کیا ایک ایسا ملک یہ اللے تللے افورڈ کر سکتا ہے جس کے سر پر ڈیفالٹ ہونے کی تلوار لٹک رہی ہو؟  باقی رہ گیا عام آدمی تو وہ ”تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو“ کی عملی تصویر بنا ہوا ہے۔

اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ملک نواز شریف نے لوٹا، آصف زرداری نے یا عمران خان نے،آئی ایم ایف کو کس نے ڈھیل دی، کس نے کتنا قرضہ پکڑا اور کس نے کتنا لوٹایا؟ انھیں فقط  دو وقت کی روٹی، تن ڈھانپنے کو کپڑے، سر ڈھانپنے کو چھت اور نقل و حرکت کے لئے پٹرول چاہیئے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اسی ریجن کے بنگلہ دیش میں مہنگائی 9 فیصد، بھارت میں 7 فیصد لیکن پاکستان میں 25 فیصد سے تجاوز کر رہی ہے جبکہ ترقی کی شرح بھی بنگلہ دیش اور بھارت میں اگر 6 یا 7 فیصد ہے تو پاکستان میں محض 2 فیصد ہے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بھی وینٹی لیٹر پر ہیں، اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے پاس 35 ارب اور بھارت کے پاس 600  ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم 127 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور سیاسی جماعتیں ہیں کہ ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہیں۔

مانا کہ موجودہ حکومت کی پالیسیاں کمزور ہیں لیکن عمران خان کی حکومت بھی دودھ کی دھلی نہیں، ان کے دورِ حکومت میں قرضوں کی رفتار سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی رہی ہو گی۔ اعدادو شمار بھی یہی کہتے ہیں،  پی پی پی نے 5 سالہ دور میں غیر ملکی قرضے کی مد میں 16 ارب ڈالر، نواز شریف کی 5 سالہ حکومت نے 34 ارب ڈالر اور عمران خان نے محض  4 سال میں 32 ارب ڈالر وصول کئے۔

اکنامک ایڈوائزری کونسل کے سابق رکن فرخ سلیم کے مطابق 2008  میں 6 ہزار ارب قرضہ 10 سالوں میں 30 ہزار ارب اور گذشتہ حکومت کے تین ساڑھے تین سالوں میں 50 ہزار کو کراس کر گیا۔   سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو اپنے عوام اور وسائل انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنے کے لئے کس نے مجبور کیا؟ نامی گرامی معیشت دان اور اقتصادی ماہرین عبدالحفیظ پیرزادہ، مبشر حسن،محبوب الحق، معین قریشی، سرتاج عزیز، شوکت عزیز، سلمان شاہ، عبدالحفیظ شیخ، شوکت ترین، مفتاح اسماعیل اور اسحٰق ڈار  کی اکنامکس کیسے فیل ہو گئی؟

دیکھا جائے تو اب 170 ارب روپے کا منی بجٹ بھی آ چکا ہے، عام استعمال کی اشیاء پر ٹیکس کی شرح 18 فیصد اور لگثری آئٹمز پر یہ ڈیوٹی 25 سے 3فیصد تک لاگو کر دی گئی ہے۔ پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں لیکن آئی ایم ایف کے نخرے ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان کی بجلی بھی گرتی ہے تو بیچارے غریب پر،اشرافیہ کسی شکنجے میں نہیں آتی اور اب حالت یہ ہے کہ  پاکستان میں صرف دو درجے کے لوگ نظر آتے ہیں، ایک انتہائی امیر اور دوسرے انتہائی غریب۔۔پاکستان میں طبقاتی فرق میں کتنا وسیع گیپ ہے اس کا اندازہ اب کینیڈا کی مشہور کافی چین ”ٹم ہارٹن“ میں ایلیٹ کی لائن اور یوٹیلٹی سٹور کے باہر لگی غریب کی لائن سے لگایا جاتا ہے۔

دیکھا جائے تو اسحٰق ڈار کو امپورٹ کرنا بھی رائیگاں گیا، انھیں دیا گیا این آر او بھی کسی کام نہ آیا اور پاکستان کا مالیاتی خسارہ ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے، رہی سہی کسر ڈار کمپنی نے روپے کی قدر میں مصنوعی اضافے سے پوری کر دی جس سے ڈالر کو پر لگ گئے۔ اس پر آئی ایم ایف کو بھی تاحال مطمئن نہیں کیا جا سکا، اب تو پرائم منسٹر شہباز شریف نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں، بقول پی ایم، آئی ایم ایف ہمیں ٹف ٹائم دے رہا ہے لیکن کیا وہ خود اور دیگر سیاسی جماعتوں کے بڑے یہ نہیں جانتے کہ معاشی استحکام، سیاسی استحکام سے مشروط ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ ملک کو اس مشکل صورتحال سے نکالنے کے لئے سیاسی رہنما کیا کر رہے ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ ان کہ آپسی لڑائی اور الزام تراشی نے کروڑوں لوگوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔اگر ایک طرف عمران خان کے سیاسی کرتب ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تو دوسری طرف پی ڈی ایم میں شامل سیاستدانوں  کا جتھا مل کر بھی ملک کو مالیتی بحران سے نہیں نکال پارہا۔

بالی ووڈ بے بو شادی کے بعد بھی اپنی فیورٹ کیوں ہے؟

Related Articles

Back to top button