نئے چیئرمین نیب کا تقرر حکومت کیلئےچیلنج کیوں ہے؟

چیئرمین نیب آفتاب سلطان کے استعفے کے بعد جہاں ان کے مستعفی ہونے کی وجوہات زیر بحث ہیں وہیں سوشل میڈیا پر آفتاب سلطان اور جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے درمیان موازنہ بھی کیا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آفتاب سلطان کے استعفے کو موجودہ حکومت کے لیے ایک دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ آفتاب سلطان کو شریف خاندان کا وفادار قرار دینے والی تحریک انصاف نے بھی ان کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ دوسری طرف یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ آفتاب سلطان کے بعد نیا چیئرمین نیب کون ہو گا اور اس کی تقرری کیسے عمل میں لائی جائے گی۔

اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق جولائی 2022 میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کی مشاورت سے تعینات ہونے والے آفتاب سلطان کا دور اس حوالے سے اہم رہا ہے کہ اس دوران اپوزیشن کے کسی رہنما پر کوئی نیا مقدمہ یا ریفرنس دائر نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایت پر توشہ خانہ، مالم جبہ، بی آر ٹی کیسز کی نئے سرے سے تحقیقات ضرور شروع ہوئیں لیکن ان میں کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اسی طرح نیب آرڈیننس میں ترامیم کے باعث سینکڑوں مقدمات ختم ہوگئے۔

اس لیے کہا جاتا ہے کہ آفتاب سلطان کا دور احتساب کے حوالے سے اوسط درجے کا دور تھا جس میں انھوں نے صرف ادارے کے اندر رہ کر کام کیا اور کسی قسم کا کوئی ایڈونچر نہیں کیا جو ماضی میں ادارے کے چیئرمین کرتے رہے ہیں۔اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ اکرام چوہدری نے کہا کہ ’آفتاب سلطان نے کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جسے ایکسٹریم فیصلہ کہا جا سکے۔‘’ان کے استعفے کی بھی کوئی دوسری وجہ نظر نہیں آتی کہ انھوں نے ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے اختلاف کیا جو ماضی میں احتساب کے ادارے کو استعمال کرکے کیے جاتے رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب ملک میں کئی محاذوں پر آئینی بحران جنم لے رہے ہیں چیئرمین نیب کا استعفیٰ ایک درست عمل ہے کہ انھوں نے نیب کے سابق سربراہان کی طرح نوکری بچانے یا اسے دوام دینے کے لیے کسی سیاست دان کو بَلی کا بکرا بنانے کے بجائے اپنی نوکری قربان کرکے ایک طرف ہوگئے ہیں۔
خیال رہے کہ جولائی 2022 میں آفتاب سلطان کی بطور چیئرمین نیب تعیناتی کے وقت حکومت کے پاس اپنے ہم نوا قائد حزب اختلاف تھے۔ اس لیے آئینی طور پر تعیناتی میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور تحریک انصاف کی مخالفت اور تعیناتی کو چیلنج کرنے کے اعلان کے باوجود اس کے لیے تمام قانونی لوازمات پورے کیے گئے تھے۔اس وقت بھی اگرچہ قائد حزب اختلاف راجا ریاض ہی ہیں لیکن لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے تحریک انصاف کے 70 ارکان کی بحالی کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔

تحریک انصاف نے ایوان میں اپنا قائد حزب اختلات لانے کے لیے باضابطہ درخواست بھی سپیکر قومی اسمبلی کے پاس جمع کرا دی ہے۔ ایسے میں حکومت کے لیے چیئرمین نیب کی تعیناتی ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتی ہے۔ ایڈووکیٹ حسن رشید کے مطابق ’سپیکر کے کسی بھی فیصلے سے پہلے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف باہمی مشاورت سے نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی عمل میں لا سکتے ہیں۔’’یہ ایک آئینی تقاضا ہے، اسے آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے عمل میں لایا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔تاہم ایڈووکیٹ اکرام چودھری سمجھتے ہیں کہ ’نیب کے حوالے سے ترامیم پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہیں۔ سپریم کورٹ احتساب کے معاملات پر جوڈیشل نگرانی رکھتی ہے۔نیب کے حوالے سے کئی ایک فیصلے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس لیے کوئی بھی ایسی تعیناتی سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے، انھوں نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ سپیکر تحریک انصاف کی درخواست پر فیصلہ کریں اور اس کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت کے بعد چیئرمین نیب کا تقرر کیا جائے۔

اس کے برعکس اگر کچھ ہوا جس کا زیادہ امکان بھی ہے کہ حکومت ایسا بندہ لانا چاہے گی جو ان کے کام آسکے تو پھر عوام، وکلا اور عدلیہ کی جانب سے ردعمل آئے گا اور معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جائے گا یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے؟ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ حافظ احسان احمد کھوکھر کے مطابق ’سنہ 2022 میں تازہ ترین ترمیم کے پیش نظر چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے قومی احتساب بیورو آرڈیننس 1999 کے سیکشن 6 میں ایک نیا طے شدہ طریقہ کار موجود ہے۔

اس کے تحت وفاقی حکومت کی طرف سے چیئرمین نیب کی تعیناتی تین سال کی مدت کے لیے کی جا سکتی ہے اور اس میں توسیع نہیں کی جا سکتی۔آئینی ماہر کے مطابق ’چیئرمین قومی احتساب بیورو کا تقرر وفاقی حکومت قائد ایوان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کے بعد کرے گی۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ’چیئرمین نیب کے نام پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے تجویز کردہ نام پارلیمانی کمیٹی سپیکر قومی اسمبلی تشکیل دے گی۔اس میں 50 فیصد حکومتی اور 50 فیصد اپوزیشن بینچوں پر مشتمل ہوں گے۔ کمیٹی نئے چیئرمین کا حتمی فیصلہ اتفاق رائے یا کثرت رائے سے کرے گی۔

’’اداکار رنویر سنگھ کی نوبیل انعام یافتہ ملالہ کیساتھ تصویر وائرل‘‘

Related Articles

Back to top button