مسلم کش امریکی سفیر زلمے خلیل زاد ، عمران کا حامی کیوں؟

عمران خان کہا کرتے تھے کہ ان کی حکومت امریکہ نے گرائی ہے لیکن ان کی حمایت میں کھل کر چین یا روس کا نہیں بلکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا اہم کردار زلمے خلیل زاد سامنے آیا۔ حیرت انگیز طور پر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے کچھ عرصہ بعد وہ خفیہ دورے پر پاکستان آئے اور بنی گالہ میں عمران خان سے تین گھنٹے پر محیط ون ٹو ون ملاقات کی۔عمران خان کے علاوہ وہ جس دوسرے فرد سے ملے وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے اور اس ملاقات میں انہوں نے ان پر زور دیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ صلح کرلیں۔بعدازاں ٹیلی فونک رابطہ کرکے وہ جنرل باجوہ کو عمران خان کے ساتھ ملاقات کیلئے قائل کرتے رہے اور ایوان صدر میں دونوں کی جو ملاقات ہوئی تھی وہ بنیادی طور پر زلمے خلیل زاد کی کوششوں سے ہوئی تھی۔ یہ انکشافات سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی نے اپنے کالم میں کیۓ ہیں . وہ لکھتے ہیں کہ اب درپردہ کردار ادا کرنے کی بجائے زلمے خلیل زاد عمران خان کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے ہیں اور ان کے حق میں ایسی ٹویٹ کی کہ جیسے وہ زلمے خلیل زاد نہیں بلکہ علی امین گنڈاپور ہوں۔
عمران خان کہتے ہیں کہ وہ عالم اسلام کے لیڈر ہیں۔ ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور عالم اسلام کے مفادات کی خاطر امریکہ کو آنکھیں دکھائیں لیکن دوسری طرف عالم اسلام میں امریکی مفادات کے سب سے بڑے محافظ زلمے خلیل زاد ان کے لئے سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ سلیم صافی ماضی کا حوالہ دیتے ہوۓ بتاتے ہیں کہ رحیم اللّٰہ یوسفزئی مرحوم جو ہمارے وفد کے قائد تھے، نے بتایا کہ زلمے خلیل زاد امریکہ میں نہایت اہم آدمی ہے ان سے ملاقات کرنی چاہئے۔

ہم میں سے اکثر ساتھیوں نے اس ملاقات سے نہایت برا تاثر لیا کیونکہ ہم جتنے بھی امریکیوں سے ملے تھے، ان میں سب سے خراب رویہ زلمے خلیل زاد کا تھا۔وہ پشتو اور دری زبانیں بھی بول سکتے ہیں اور ہم نے بار بار ان سے پشتو میں بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے جواب میں ایک لفظ بھی پشتو کا نہیں بولا اور امریکی اسٹائل میں انگریزی بولتے رہے۔ ان کی ہر بات سے پاکستان سے نفرت جھلک رہی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان سے متعلق امریکی اور افغانی غصہ ان کی ذات میں یکجا ہوگیا ہے۔

نائن الیون کے بعد زلمے خلیل زاد مزید منظر عام پر آگئے خلیل زاد بنیادی طور پر پختون افغان ہیں لیکن ان کی پیدائش ازبک شہر مزارشریف میں ہوئی۔ وہ اسکالرشپ پر تعلیم کیلئے امریکہ گئے اور پھر امریکہ ہی کے ہوکر رہ گئے۔

شگاگو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے بعد وہ مختلف حیثیتوں میں امریکی محکمہ ٔدفاع اور محکمۂ خارجہ کے لئے کام کرتے رہے۔ عمل کے لحاظ سے وہ سرتاپا امریکی ہیں اور مسلمان ہونے کے ناتے انہیں زیادہ تر مسلمان ممالک سے متعلق امریکی پالیسی سازی یا پھر وہاں پر امریکی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔

انہوں نے امریکی مفادات کے حصول میں اس قدر بنیادی کردار ادا کیا کہ وزارت خارجہ سے وابستہ ہونے کے باوجود امریکی وزارت دفاع نے انہیں ڈیفنس میڈلز سے نوازا۔ سلیم صافی کہتے ہیں کہ طالبان کے خلاف امریکی حملے سے قبل اور اس کے بعد زلمے خلیل زاد ہمہ وقت امریکی انتظامیہ پر زور ڈالتے رہے کہ طالبان کے خلاف کارروائیوں سے زیادہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد وہ یہاں امریکہ کے سفیر مقرر کئے گئے لیکن عملاً ان کی حیثیت وائسرائے کی تھی۔ طالبان اور پاکستان سے متعلق ان کا رویہ اس قدر جارحانہ تھا کہ ان کے حامد کرزئی سے بھی شدید اختلافات پیدا ہوئے۔

خلیل زاد جیسے لوگوں کے مشورے پر ایک طرف گوانتاناموبے اور بگرام جیسے عقوبت خانے قائم کئے گئے اور دوسری طرف امریکی رات کو گھروں میں گھس کر کارروائیاں کرتے رہے جس کی حامد کرزئی مخالفت کرتے رہے۔ یہاں پر امریکی پنجے گاڑنے کے بعد جب امریکہ عراق پر حملہ آور ہوا تو اس کے لئے گراں قدر خدمات کی وجہ سے انہیں وہاں امریکہ کا سفیر مقرر کردیا گیا۔

2005سے 2007 تک وہ عراق میں سفیر رہے اور یہاں پر امریکی مقاصد پورے کرنے کے بعد انہیں 2007 میں اقوام متحدہ میں امریکہ کا مندوب مقرر کیا گیا۔ وہ پہلے مسلمان تھے جنہیں اتنے اہم عہدے پر تعینات کیا گیا کیونکہ امریکہ کے لئے ان کی خدمات کسی بھی امریکی سے کم نہیں تھیں ۔ مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی کی تشکیل میں بھی ہمہ وقت خلیل زاد کی معاونت شامل تھی .
وہ کٹر ری پبلکن ہیں جب کہ ری پبلکنز میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر تصور کئے جاتے ہیں۔ سلیم صافی کا کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد کی آخری سرکاری ذمہ داری طالبان کے ساتھ دوحہ مذاکرات کے لئے امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی کی تھی اور اس کے لئے سی آئی اے، پنٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بھی صدر کے حکم پر ان کا ماتحت کردیا گیا تھا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکیوں کے ہاں ان کی کیا اہمیت ہے۔

وہ واحد ری پبلکن تھے جنہیں ڈیموکریٹ صدر جوبائیڈن نے حکومت کی تبدیلی کے بعد طالبان کے ساتھ ڈیل کو منطقی انجام تک پہنچانے تک انہیں اس عہدے پر برقرار رکھا۔

اس وقت سرکاری طور پر ان کے پاس کوئی عہدہ ہے اور نہ پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ ان کا کوئی سروکار ہے لیکن حیرت انگیز طور پر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے کچھ عرصہ بعد وہ خفیہ دورے پر پاکستان آئے اور عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیاں صلح کروانے کی کوشش کرتے رہے . گوانتاموبے، ابو غریب اور بگرام کے عقوبت خانوں میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم کی وکالت کرنے والے زلمے خلیل زاد کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی والوں کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔

اب کیا یہ بات معاملے کی حقیقت کو سمجھنے کے لئےکافی نہیں لیکن حقیقت سمجھنے کےلئے عقل کا استعمال ضروری ہے اور بدقسمتی سے ہم پاکستانی عقل کو زحمت دینے کے زیادہ روادار نہیں۔

سابق بھارتی اداکارہ ثنا خان کے ہاں ننھے مہمان کی آمد متوقع

Related Articles

Back to top button