عمران کی گرفتاری، PTIکی احتجاجی مہم ناکام کیوں رہی؟

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے خلاف لاہور، پشاور، کوئٹہ سمیت ملک کے چند شہروں میں چند گنے چنے عمرانڈوز کے احتجاج کے بعد زندگی معمول پر آچکی ہے۔ توشہ خانہ کیس میں سزا اور گرفتاری کے بعد احتجاج کے لیے نکلنے والوں کی تعداد انتہائی کم رہی۔ حالانکہ عمران خان نے گرفتاری سے پہلے ریکارڈ کروائی گئی ویڈیو میں اپنے کارکنوں کے نام پیغام دیا تھا کہ ان کی گرفتاری کی صورت میں لوگ گھروں میں چپ کرکے نہ بیٹھے رہیں بلکہ سڑکوں پر آ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ تاہم یوتھیوں نے 9 مئی کے برعکس 5 اگست کو گھروں میں دبکے رہنے میں ہی عافیت جانی اور پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری پر موثر احتجاجی مہم چلانے میں یکسر ناکام نظر آئی۔
پاکستان میں کئی مبصرین کا خیال ہے کہ توشہ خانہ کیس میں سزا ملنے اور گرفتار کیے جانے کے بعد عوامی سطح پر عمران کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ عمران خان شفافیت کے حوالے سے اپنے ہی مقرر کردہ پیمانوں پر پورا نہیں اترے۔ بعض مبصرین کے مطابق عمران خان کو ڈی گئی سزا اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے بعد معطل بھی ہو سکتی ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ آسان نہیں ہوگا۔
قانون دان اور تجزیہ کار منیب فاروق کے مطابق عمران خان کو ہونے والی سزا کو تین پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ان پر لگنے والے الزامات جو کافی مضبوط ہیں اور ان کی بنیاد خود خان صاحب کی غلطیاں ہیں جن کے شواہد موجود ہیں۔منیب فاروق کی رائے میں توشہ خانہ کیس میں عمران خان کا دفاع بہت کمزور تھا۔ ان کے وکلا کا زیادہ تر فوکس تکنیکی امور پر رہا اسی لیے ان کے وکیل تاخیری حربے استعمال کرتے رہے۔ ڈیڑھ ماہ کے قریب ان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم امتناعی بھی میسر رہا اور ہفتے کے روز بھی بار بار بلانے پر ان کے وکیل عدالت نہیں پہنچے۔ جس کے بعد عدالت نے عمران خان کو سزا سنا دی۔
منیب فاروق سمجھتے ہیں کہ اگرچہ اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے لیے عمران خان کے وکلا کی اس دلیل کو اہمیت ملے گی کہ ان کو پوری طرح نہیں سنا گیا، لیکن اس وقت جو حالات دکھائی دے رہے ہیں ان میں عمران خان کو اپیل میں ریلیف ملنا آسان نہیں ہوگا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ریاست کا دباؤ ایک ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا: ’’اگر عام حالات ہوتے تو یقینا ابتدائی پیشیوں پر ہی انہیں ریلیف مل جاتا لیکن اس وقت ملک میں عام حالات نہیں ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں منیب فاروق نے بتایا کہ توشہ خانہ کے حوالے سے ایک اپیل اب بھی اعلیٰ عدالت میں زیر التوا ہے، اگر اس کا فیصلہ عمران کے حق میں آ گیا تو پھر اس فیصلے کی کیا حیثیت ہوگی اور یہ صورتحال بھی کافی منفرد نوعیت کی ہوگی۔
دوسری جانب سینیئر صحافی خالد فاروقی کے مطابق توشہ خانہ کیس میں سزا سے ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو انتخابی سیاست میں کافی دھچکہ لگے، کیونکہ ان کی سیاست ان کے گرد ہی گھومتی رہی ہے اور ان کی غیر موجودگی میں ان کی پارٹی میں کوئی قد آور شخصیت موجود نہیں ہے کہ جسے عوام ان کے متبادل کے طور پر قبول کریں: ’’ہو سکتا ہے کہ ہوا کے مخالف رخ کی وجہ سے اچھے امیدوار پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہ لیں لیکن عوامی سطح پر ان کے لیے ہمدردی کی لہر ضرور پیدا ہوگی اور ان کے حمایتیوں کا غم و غصہ، ان میں نیا جوش اور توانائی پیدا کر سکتا ہے۔‘‘ خالد فاروقی کے بقول، ’’ماضی میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ قید و بند کی صعوبتوں سے سیاسی پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ عوام ان لیڈروں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے رہے ہیں۔‘‘
دوسری جانب منیب فاروق اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی منتشر ہو چکی ہے: ’’شاہ محمود قریشی کے لیے پارٹی کو متحد رکھنا، لے کر چلنا اور پھر انتخابی مہم چلا کر الیکشن میں حصہ لینا آسان نہیں ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی عمران کے بغیر کچھ نہیں۔‘‘
تاہم تجزیہ کار سلمان عابد کے مطابق اس سزا کے بعد مسلم لیگ ن کو وہ ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ تو مل گیا ہے جس کا وہ عرصے سے مطالبہ کرتی آ رہی تھی، لیکن ان کے خیال میں عمران کو عجلت میں کیے گئے فیصلوں کے ذریعے زبردستی راستے سے ہٹا کر کروائے جانے والے الیکشنز کی ساکھ پر بہت سوال اٹھیں گے۔ سلمان عابد کے بقول اس فیصلے کی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ آنے سے پہلے ہی لوگوں کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ یہ فیصلہ آ رہا ہے اور اس بارے میں سوشل میڈیا پر اسے شیئر بھی کیا جا رہا تھا۔
دوسری طرف عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کی ملک بھر میں پر امن احتجاجی مظاہروں کی کال یکسر ناکام رہی۔ بیشتر عمرانڈوز باہر آ کر سڑکوں پر احتجاج کرنے سے گریزاں نظر آئے۔بیشتر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کے کئی لیڈر گرفتار ہیں، ان کی لسٹیں بن چکی ہیں، عام کارکن پہلے ہی خوف زدہ ہیں اس لیے عمران خان کی گرفتاری پر کوئی بہت بڑی احتجاجی مہم نہیں چل سکی۔ تاہم سوشل میدیا پر گہما گہمی ضرور دیکھنے میں نظر آئی۔