الیکشن میں تحریک انصاف کو مکمل مائنس کرنے کا فیصلہ؟

الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان چھن جانے اور خواتین کی مخصوص نشستوں اور سینیٹ سے فراغت کے بعد آئندہ الیکشن کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے بچے کھچے عمرانڈوز کو خدشہ ہے کہ کاغذات نامزدگی کی تصدیق کیلئے ریٹرنگ افسران کے طلب کرنے پر حاضر ہونے پر انھیں یا ان کے تائید اور تجویز کنندگان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جن کے مطابق ریٹرنگ افسران پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں کو ذاتی حثیت میں طلب کر سکتے ہیں، جنھوں نے گرفتاریوں کے خدشے کے پیش نظر زیر زمین چلے جانےکے باجود آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیےکاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کے اقدام کا مقصد ممکنہ طور پر اس کے امیدواروں کو اغوا کرنا اور انہیں انتخابی عمل سے دور رکھنا ہے۔ پارٹی اس طرح کی طلبی کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتی ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل سرکاری زرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کے ایسے رہنما جو نو مئی کےپر تشدد واقعات میں ملوث تھے انہیں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران طلب کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ریٹرننگ آفیسر کے طلب کیے جانے پر کسی بھی امیدواروں کے لیے قانونی طور پر حاضر ہونا ضروری ہے۔  اگر ایسے رہنما ریٹرننگ افسر کے سامنے حاضر نہیں ہوئے تو ان کے کاغذات مسترد ہو سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شرپسند عمرانڈو رہنماوں کے دستخط اور کاغذات نامزدگی کو ان کے حریف امیدوار چیلنج کریں گے۔

ذرائع کے مطابق ریٹرننگ آفیسر قانونی طور پر پابند ہیں کہ وہ امیدواروں کے دستخطوں کی انہی سے تصدیق کرائیں اور کاغذات نامزدگی کے بارے میں امیدواروں سے براہ راست سوالات کریں۔تاہم قانونی ماہر اور سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مطابق ”جہاں تک مجھے قوانین کا علم ہے ایسی کوئی شرط نہیں۔ کوئی بھی امیدوار اپنے وکیل کے ذریعے یا کسی اور کو نامزد کر کے اپنے کاغذات جمع کروا سکتا ہے۔ اس کے لیے تجویز کنندہ اور تصدیق کنندہ کا ہونا ضروری ہے۔‘‘

معروف قانون دان شعیب شاہین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ اگر امیدوار کا اٹارنی موجود ہے تو امیدوار کا آنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ ”چاہے دستخط ہی کی جانچ پڑتال کیوں نا کرنی ہو۔‘‘

پی ٹی آئی کے رہنما شیر افضل خان مروت کا کہنا ہے کہ الیکشن قوانین میں ایسی کوئی شق نہیں جس کے تحت ریٹرننگ افسر امیدواروں کو مجبور کرے کہ وہ اس کے سامنے حاضر ہوں۔ انہوں نے بتایا، ”اس طرح کی خبروں کا بنیادی مقصد پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکنوں میں خوف پھیلانا ہے اور ان کو اغوا کرنا ہے۔‘‘ شیر افضل خان مروت کے مطابق پی ٹی آئی نے تمام تیاریاں کر لی ہیں۔ ”اگر ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہم ہر طرح کی قانونی اور آئینی لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان ہارون شنواری کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس طرح کی کوئی ہدایت یا خط جاری نہیں کیا ہے، جس کے تحت امیدواران کو کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران طلب کیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے اس طرح کی کوئی ہدایت جاری کی ہیں اور نہ ہی ہم نے کوئی خط امیدواران کو لکھا ہے۔ تاہم یہ خالصتا مینڈیٹ ریٹرننگ آفیسر کا ہے کہ وہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کیسے کرتا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان ریٹرننگ آفیسر کے معاملات میں بالکل مداخلت نہیں کرتا۔‘‘تاہم الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ”آر او کاغذات نامزدگی پر اپنے اطمینان کے حوالے سے کچھ بھی کر سکتا ہے۔‘‘

خیال رہے کی ریٹرننگ آفیسر امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی بہت احتیاط سے جانچ پڑتال کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں مہیا کی گئی تمام معلومات درست ہیں۔ اگر وہ مطمئن نہیں ہے تو وہ کاغذات نامزدگی کو مسترد یا منظور کرنے سے قبل ایک مختصر دورانیے کی انکوائری کر سکتا ہے۔

اگر کوئی بہت بڑا نقص نہیں ہے تو ریٹرننگ آفیسر کاغذات کو مسترد نہیں کر سکتا اور اس نقص کو صحیح کرنے کی مہلت دے سکتا ہے۔ نقائص کا تعلق نام یا انتخابی فہرستوں میں سیریل نمبر سے ہے۔ ریٹرننگ آفیسر کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی صرف اسی طور پہ مسترد کر سکتا ہے، جب وہ مطمئن ہو کہ وہ امیدوار منتخب ہونے کا اہل نہیں ہے یا تجویز کنندہ اور تائید کنندہ تجویز کرنے اور تائید کرنے کے اہل نہیں ہیں یا پھر تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کے دستخط جعلی ہیں۔ ریٹرنگ آفیسر کسی بھی امیدوار کے کاغذات مسترد کرنے کی صورت میں اپنے اس فیصلے کی وجوہات لکھنےکا پابند ہے۔

Back to top button