کیا نوازشریف کا چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب شہباز نے چکنا چور کیا؟

نواز شریف کی بجائے شہبازشریف کے بطور وزیر اعظم وفاقی حکومت سنبھالنے کے بعد سے سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے کہ کیا نواز شریف نے کسی دباؤ پر چوتھی دفعہ وزیر اعظم بننے کے فیصلے سے دستبردار ہوئے؟ کیا شہباز شریف نے دھوکے سے بھائی کی جگہ خود وزارت عظمٰی سنبھال لی اور نواز شریف کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے؟ کیا نون لیگ میں اب بھی نواز اور شہباز کیمپ موجود ہیں اور ان میں اقتدار کی جنگ جاری ہے؟ اس حوالے سے سینیئر صحافی زاہد حسین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ پارٹی کے کچھ سینیئر رہنما اب کھل کر شہباز شریف کے ہائبرڈ طرزِ حکومت پر ناراضی کا اظہار کررہے ہیں۔ اس اندیشے کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ اصل اقتدار کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور بڑے بھائی نواز شریف جو تخت کے اصل وارث ہیں، انہیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ ان اختلافی آوازوں سے جماعت میں اندرونی تقسیم واضح ہوتی جارہی ہے۔

زاہد حسین کے بقول شاید یہ شہباز شریف کی حکومت کے لیے فوری خطرہ نہ ہو لیکن ان اختلافات کا سنگین صورت اختیار کرنے کا خطرہ موجود ہے جہاں انتظامیہ اس سے راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش میں ہے۔ زاہد حسین کا مزید کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں عدم اطمینان صرف شریف خاندان میں اقتدار کی تقسیم ہی نہیں بلکہ یہ ہائبرڈ طرزِ حکمرانی میں موروثی سیاست کے تضاد کی نشانی بھی ہے اور یہ اختلافی صدائیں پارلیمنٹ کے باہر موجود قوتوں کی جانب طاقت کا زیادہ جھکاؤ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔تاہم اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی معاملات میں گہری مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی طاقت کی ایک اور دلچسپ مثال فیصل واوڈا کا بطور سینیٹر منتخب ہونا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے والے فیصل واوڈا عمران خان کی حکومت میں وفاقی وزیر تھے اور ان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط تعلقات مشہور ہیں۔ سینیٹ انتخاب میں تمام اتحادی جماعتوں نے ان کی حمایت کی۔ رانا ثنااللہ کے بقول، ’یہ سب ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں‘۔

زاہد حسین کے مطابق اگرچہ شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کرنے میں شاید کوئی مسئلہ نہ ہو لیکن مسلم لیگ (ن) کے اندر ناراضی واضح ہورہی ہے۔ صرف رانا ثنااللہ نہیں بلکہ دیگر رہنما بھی اب بول پڑے ہیں۔ ان کے دور میں شاید جماعت میں اندرونی تصادم نہ ہو لیکن عوامی حکومت کے اختیارات کم کرنے کے حوالے سے ان کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔

زاہد حسین کے بقول پارٹی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانے والوں میں سے زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے رہنما 8 فروری کو شکست سے دوچار ہوئے تھے جس سے ان کی مایوسی میں اضافہ ہوا۔ اکثریت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالیں۔ تاہم تین بار وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والے نواز شریف نے خود کو پنجاب تک محدود کرلیا ہے جہاں وہ صوبائی انتظامی امور چلانے میں اپنی بیٹی کی مدد کررہے ہیں۔ لیکن وہ فیصلہ سازی کے عمل سے پوری طرح لاتعلق نہیں۔ وہ اب بھی اہم پارٹی اور حکومتی معاملات کے فیصلے لیتے ہیں۔

زاہد حسین کے مطابق پارٹی کے کچھ رہنما نواز شریف کے پیچھے ہٹنے کے فیصلے کو خود کو حکومتی تنازعات سے دور رکھنے اور اپنے آپ کو وقت دینے کی حکمتِ عملی کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن شاید یہ تجربہ کار سیاستدان کے لیے اتنا آسان نہ ہو۔ 8 فروری کے عام انتخابات میں ایک نشست پر شکست اور لاہور کی نشست پر متنازع جیت کے بعد نواز شریف کی پوزیشن کافی حد تک کمزور ہوئی ہے۔ یہ ان سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ یہ ان کی پارٹی کی وہ جیت تھی جس کے لیے انہوں نے بڑی قیمت ادا کی ہے۔

زاہد حسین کا ماننا ہے کہ درحقیقت مسلم لیگ (ن) کی اقتدار میں واپسی اور انتہائی کمزور مخلوط حکومت کی بقا صرف اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ممکن ہے۔ اس صورتحال میں یہ حیران کُن نہیں ہے کہ ہائبرڈ نظام میں طاقت کے ترازو کا جھکاؤ ملٹری قیادت کی جانب ہے۔ حکومت کی قانونی حیثیت کے سوال نے پارلیمنٹ کی طاقت کو مزید کمزور کر دیا ہے جس نے غیر منتخب عناصر کو زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔

زاہد حسین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے باوجود مضبوط اپوزیشن کے دباؤ کے ساتھ حکومت کی حالت متزلزل ہے۔ ایسی صورتحال میں شہباز حکومت کے پاس اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ تاہم سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی مداخلت پر مسلم لیگ (ن) کے چند رہنماؤں کا وقتاً فوقتاً ظاہر ہونے والے غصہ سے یہ امکان موجود نہیں کہ طاقت کا موجودہ نظام جلد تبدیل ہوگا۔ تاہم اس ساری صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت ہے۔ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی عوامی حکومت کے اختیارات پر زور دینے کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس سے محاذ آرائی کی سیاست میں مزید اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے۔ ملک کو درپیش متعدد چیلنجز سے خرابی کا شکار سیاسی نظام کو ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تاریخ کا سبق ہے جس سے بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان کچھ سیکھ نہیں پائے۔

Related Articles

Back to top button