عمران سیاست دانوں کی بجائے فوج سے مذاکرات پرمصر کیوں؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے موجودہ عسکری قیادت پر بے بنیادالزام تراشیوں کے بعد اب پی ٹی آئی قیادت نے سیاسی حکومت کی بجائے صرف آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔شہباز حکومت کی طرف سے بانی چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کو مذاکرات کی کھلے دل سے پیشکش کو پی ٹی آئی قیادت نے مسترد کرتے ہوئے صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کا مطالبہ کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ سینیٹ میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی  نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کو مذاکرات کی پیش کش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئیں ملک کے لیے حکومت کے ساتھ بیٹھیں اور بات کریں۔تاہم حکومتی پیشکش کے جواب میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ بانی چئیرمین تحریک انصاف صرف آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات چاہتے ہیں، تحریک انصاف پاکستان کے بہتر مستقبل کی خاطر صرف آرمی چیف سے بات کرنے پر تیار ہے۔ عمران خان کی شروع دن سے مذاکرات کی خواہش تھی لیکن دوسری طرف سے رسپانس نہیں آیا، یہ تاثر غلط ہے کہ بانی پی ٹی آئی این آر او چاہتے ہیں۔تاہم وہ صرف مذاکرات عسکری قیادت سے ہی کریں گے۔

تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے صرف عسکری قیادت سے مذاکرات کے مطالبے کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف عمران خان اپنی اہلیہ بشریٰ بی کو زیر خورانی کا الزام آرمی چیف پر لگاتے ہیں دوسری طرف مذاکرات میں انھی سے کرنا چاہتے ہیں سمجھ نہیں آتی کہ سابق وزیر اعظم اصل میں چاہتے کیا ہیں؟ حالانکہ عمران خان جہاں سابق عسکری قیادت کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں وہیں اپنے خلاف آنے والے عدالتی فیصلوں اور الیکشن نتائج کا ذمہ دار موجودہ قیادت کو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ شہباز حکومت کے حوالے سے بھی عمران خان کے الزامات کسے سے ڈھکے چھپے نہیں تاحال اس تمام صورتحال کے باوجود پی ٹی آئی قیادت کا صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کا مطالبہ غیر معقول نظر آتا ہے۔

خیال رہے کہ سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ عمران خان جب محمود خان اچکزئی کو صدر کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار نامزد کر سکتے ہیں، احتجاج کے لیے  وہ مولانا فضل الرحمٰنکے ساتھ بیٹھ رہے ہیں جن کا نام لینا انھیں گوارا نہیں تھا، انہیں چاہیے کہ اب ملک کے لیے آئیں، بیٹھیں اور حکومت سے مذاکرات کریں۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ ہم مفاہمت کس سے کریں جب سامنے والے کے ہاتھ جیب میں ہوں؟ تحریک انصاف محمود اچکزئی سے ہاتھ ملاسکتی ہے تو ہمارے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری ساتھ زیادتی ہوئی تو دوسروں کے ساتھ بھی ہوتی رہے۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا رویہ بدلیں، مخالفین کو چور، ڈاکو کہنا چھوڑیں اور پارلیمان و جمہوریت کی توقیر کے لیے ایوان میں مل کر کام کریں۔

سینیٹر شیری رحمن نے سینیٹ اجلاس میں کہا کہ آصف زرداری نے جو کہا ہے اسے خوش آمدید کہنا چاہیے، آصف زرداری نے سب کو دعوت دی ہے، انہوں نے تحریک انصاف، مسلم لیگ (ق)، بلوچستان عوامی پارٹی یا کسی ایک جماعت نہیں بلکہ تمام جماعتوں کو دعوت دی ہے، آصف زرداری نے کہا کہ یہ سب کی ذمہ داری ہے۔رہنما پیپلز پارٹی نے بتایا کہ آصف زرداری نے جو کہا اس پر عمل کرنا چاہیے، پیپلزپارٹی نے ہمیشہ قربانی ضرور دی ہے لیکن ملک کے وقار کو نیچا نہیں دکھایا۔ان کا کہنا تھا کہ چور ڈاکو کہنا چھوڑ دیں، پاکستان میں کون سے الیکشن ہیں جو شفاف ہوئے؟ صرف بیانیہ بنانے سے ملک آگے نہیں بڑھتا، راستے موجود ہیں آئیں مل کر آگے بڑھتے ہیں تو راستے مل جائیں گے۔

مذاکرات کی پیشکش کا جواب میںاپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے میڈیا سے گفتگو میں واضح کیا پاکستان کے لیے کسی سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن پہلے مذاکرات کے لیے ماحول بنایا جائے، پہلے سیاسی مقدمات ختم کیے جائیں۔ تاہم بعد ازاں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی نے کہا کہ پی ٹی آئی صرف آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کرے گی، جو بہت جلد ہوں گے۔ پاکستان کے بہتر مستقبل اور معاشی بحالی کی خاطر آرمی چیف سے بات کریں گے۔شہریار آفریدی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی شروع دن سے مذاکرات کی خواہش تھی لیکن دوسری طرف سے رسپانس نہیں آیا۔ یہ تاثر غلط ہے کہ بانی پی ٹی آئی این آر او چاہتے ہیں۔پی ٹی آئی رہنما نے حکومت سے مذاکرات کے سوال پر جواب دیا کہ یہ اہل ہی نہیں ہیں۔ یہ مسترد شدہ لوگ ہیں۔ ان سے کیا مذاکرات کریں؟ یہ خود محتاج ہیں۔ ریموٹ کنٹرول سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ فارم 47 کے ذریعے ایوان میں آگئے ہیں۔ عوام نے انہیں مسترد کردیا ہے۔

Back to top button