کیا شہبازحکومت پاک انڈیا تجارتی تعلقات بحال کر پائے گی؟

کراچی کے تاجروں نے حکومت کو بھارت سمیت تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا مشورہ دیا ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے اس پر کوئی جواب نہیں آیا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پاک بھارت تجارت کے فروغ سے خطے کے ممالک کے درمیان اعتماد میں اضافہ ہو گا۔

خیال رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ پانچ سال سے معطل تجارتی تعلقات کی بحالی کے لیے اس سے قبل بھی کئی بار آوازیں سامنے آچکی ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت کی جانب سے بھی اس پر غور کیا گیا لیکن عمل درآمد کبھی نہ ہوسکا۔بھارت سے تجارتی تعلقات کی بحالی کا تازہ مطالبہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورۂ کراچی کے موقع پر اس وقت سامنے آیا تھا جب تاجروں سے ملاقات کے دوران معروف تاجر عارف حبیب نے وزیرِ اعظم کو مشورہ دیا کہ حکومت بھارت سمیت پڑوسی ملکوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دے۔اگرچہ وزیرِ اعظم نے تاجر رہنما کی اس رائے کا فوری کوئی جواب تو نہیں دیا۔ لیکن انہوں نے ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز سمیت دیگر مسائل کو مل کر حل کرنے کے عزم کا ارادہ ظاہر کیا۔

تاہم یہاں یہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو پڑوسی ممالک سے تجارت بڑھانے بالخصوص بھارت سے تجارت کرنے میں کیا فوائد ہوسکتے ہیں؟

معاشی ماہرین کے مطابق پڑوسی یا علاقائی ممالک سے تجارت کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایک بڑا اور چھوٹا ملک تجارت شروع کریں تو زیادہ فائدہ چھوٹے ملک کو ہوتا ہے کیوں کہ اسے ایک بڑے ملک کی زیادہ بڑی آبادی والی منڈی میسر آسکتی ہے۔ اس وقت پاکستان کی چین کے علاوہ کسی پڑوسی ملک سے کوئی خاص تجارتی حجم نہیں ہے اور پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ مال چین سے خریدتا ہے۔چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی حجم لگ بھگ 22 ارب ڈالر ہے جس میں چین کی برآمدات تقریباً 20 ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت ایک، ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت براہِ راست تجارت نہ ہونے کے برابر ہے اور دونوں ملکوں تک ایک دوسرے کی مصنوعات تیسرے ملک بالخصوص متحدہ عرب امارات سے ہو کر پہچنتی ہیں۔یہ صورتِ حال پانچ اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے نئی دہلی کے زیرِ تسلط کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اسے ریاستی درجہ دیے جانے کے بعد سے اب تک برقرار ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ہی نہیں بلکہ ریل راستے بھی منقطع ہیں جبکہ ہوائی راستے پہلے سے ہی معطل تھے۔ حتیٰ کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان اس وقت کم ترین درجے کے سفارتی تعلقات موجود ہیں۔

خیال رہے کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ سے پہلے بھارت پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا۔ لیکن جنگ کے بعد بھارت کے ساتھ رسمی تجارت روک دی گئی، جو پھر کبھی مکمل طور پر بحال نہ ہوسکی۔

تاہم پاکستان میں نئی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے عندیہ دیا تھا کہ حکومت بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے لیکن 28 مارچ کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے واضح کیا کہ ایسا کوئی منصوبہ زیرِ بحث نہیں۔

اگست 2019 کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب حکومتِ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرنے کا کوئی عندیہ دیا تھا۔ لیکن دونوں بار اس پر عمل درآمد سے گریز کیا گیا۔وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت میں مارچ 2021 میں بھارت سے کپاس اور چینی کی درآمد کی اجازت دینے سے متعلق فیصلہ وفاقی کابینہ میں زیرِ غور آیا تھا۔ البتہ کابینہ نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ کشمیر میں آئینِ ہند کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے یکطرفہ اقدام کے باعث بھارت کے ساتھ تجارت شروع نہیں کی جاسکتی۔

دوسری جانب تاجر رہنما عارف حبیب کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دیرینہ حل طلب مسائل ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات بند ہونا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ چین اور بھارت کے بھی اختلافات ہیں لیکن یہ دونوں ملک تجارت کر رہے ہیں۔عارف حبیب کے مطابق تجارتی تعلقات کی بحالی سے دونوں ملکوں کے درمیان امن اور اعتماد کی بحالی میں مدد مل سکتی ہے۔ اگر ایسا ماحول فراہم کردیا جائے تو یہ آئیڈیل ہوگا اور لیڈرشپ کو اس قسم کے فیصلے کرنے چاہئیں جو عوام کے مفاد میں ہوں۔

تاہم پاکستان میں اکثریتی حلقے کی یہ رائے ہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کی دوبارہ بحالی تک تجارتی تعلقات بحال نہیں ہونے چاہئیں۔ اس حوالے سے پاکستانی خارجہ کا بھی کہنا ہے کہ پاک بھارت تجارت کی بحالی بارے تاحال کوئی بیک ڈور رابطہ نہیں ہو رہے۔

Related Articles

Back to top button