کیا قیدی نمبر 804سانحہ9مئی کے لئے معافی مانگے گا؟

گزشتہ کچھ دنوں سے اڈیالہ جیل کے باسی قیدی نمبر 804 سے اسٹیبلشمنٹ کے خفیہ مذاکرات اور رہائی کی افواہیں زیر گردش ہیں اور نجی محفلوں میں عمرانڈوز دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں بانی چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کے مقتدر حلقوں سے تمام معاملات طے پا گئے ہیں اورجلد عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رہائی یقینی ہے۔ تاہم زرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی بچت کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ سانحہ 9 مئی کے حوالے سے سرکاری ٹی وی پر آکر اعتراف جرم کریں اور معافی مانگ لیں۔ اس کے علاوہ عمران خان کے پاس دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں۔ باقی سب فسانے ہیں۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اگست میں بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری سے لے کر آج تک ان کی رہائی یا انہیں رعایت نہ دینے سے متعلق کوئی نہ کوئی خبر میڈیا کی زینت بنتی چلی آرہی ہے۔ اس حوالے سے تازہ گونج ایک معروف تاجر عارف حبیب کی جانب سے عمران خان سے ہاتھ ملانے کی تجویز کی صورت میں اس وقت سامنے آئی جب 24 اپریل بدھ کے روز کراچی میں تاجر برادری کے ایک اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے معروف کاروباری شخصیت عارف حبیب نے کہا ” آپ نے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے ہاتھ ملایا۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک ہاتھ آپ بھارت سمیت پڑوسیوں سے ملائیں اور دوسرا ہاتھ اڈیالہ جیل کے باسیوں سے ملائیں۔ تاہم یہ خواہش اجلاس میں شریک متعدد تاجر رہنماؤں میں سے صرف ایک کی تھی اور خاص طور پر اڈیالہ جیل کے باسیوں سے ہاتھ ملانے کی تجویز کو اجلاس کے دیگر شرکا کی تائید حاصل نہ ہوسکی تاہم اسے غلط رپورٹ کرتے ہوئے تاجر برادری کی تجویز سے قرار دیا گیا۔ حالانکہ یہ صرف ایک تاجر رہنما کی خواہش تھی ۔ جسے پذیرائی نہیں ملی۔ اسی طرح سیاسی حلقوں میں معروف صحافی انصار عباسی کا ایک کالم بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ تین اہم شخصیات عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات سلجھانے کے لئے سوچ بچار کر رہی ہیں۔
اس سارے معاملے پر جب امت“ نے اہم حلقوں تک رسائی رکھنے والے ایک ذریعے سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا ” عمران خان کے پاس اپنی بچت کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر کی طرح سرکاری ٹی وی پر سانحہ 9 مئی کے حوالے سے نہ صرف اعتراف جرم کریں۔ بلکہ معافی بھی مانگیں تو بات بن سکتی ہے۔ اس کے سوا عمران خان کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں۔ اس کے علاوہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی یا انہیں رعایت دینے سے متعلق پچھلے کئی ماہ سے جو خبر میں چل رہی ہیں۔ وہ سب فسانے ہیں۔ عمران خان کو رعایت دینے سے متعلق کوئی فرمائش یادباؤ خاطر میں نہیں لایا جارہا۔ ذرائع کے بقول ظاہر ہے کہ یہ امکان کم ہے کہ عمران خان اپنی بچت کے اس واحد راستے کو اختیار کرتے ہوئے ٹی وی پر اعتراف جرم اور معافی مانگ لیں۔ کیونکہ یہ ایک طرح سے ان کی سیاسی موت ہوگی ۔ اس صورتحال میں یہ واضح ہے کہ اگر کوئی انہونی نہ ہو جائے تو 9 مئی کے حوالے سے عمران خان کو سزا نا گزیر ہے اس حوالے سے رعایت ملنے کی کوئی گنجائش موجودنہیں۔ باقی اس حوالے سے خبریں چلتی رہیں گی۔ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ سانحہ 9 مئی میں ملوث جن ہیں افراد کو رہا کیا گیا ہے۔ انہوں نے اعتراف جرم کیا اور سزا بھگتنے کے بعد انہیں رہائی ملی ۔ اس سزا میں محض دو تین ماہ کی رعایت دی گئی۔ پھر یہ کہ رہا ہونے والے منصوبہ ساز مددگار یا سہولت کار نہیں تھے۔ معمولی جرم کا مرتکب ہوئے۔ اسی لئے سزا بھی کم سنائی گئی ۔ جن لوگوں نے یہ منصوبہ ترتیب دیا اور بغاوت کرانے کی کوشش کی۔ انہیں کسی قیمت پر نہیں چھوڑا جائے گا۔ انھیں ملٹری کورٹس سے طویل سزائیں یقینی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر 9 مئی کی سازش کامیاب ہو جاتی تو ایک روایت بن جاتی اور ہر مختصر وقفے کے بعد یہاں بغاوت ہورہی ہوتی۔ لہذا اس سازش کے منصوبہ سازوں کو سزا دینی اس لئے بھی ضروری ہے کہ کل کسی کو ایسی جرات نہ ہو سکے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور عمران خان پروجیکٹ دس برس کا تھا تاہم اس میں مزید توسیع ہونی تھی۔ اگلے مرحلے میں عمران خان کو دو تہائی اکثریت دلانے کا پلان تھا۔ جس کے بعد ملک میں صدارتی نظام لانے کیلئے آئینی ترامیم کی جاتیں اور پھر عمران خان نے تاحیات صدر مملکت بننا تھا۔ تاہم یہ مجوزہ پلان قبل از وقت نا کام ہو گیا۔ یہ پلان دو ہزار گیارہ میں بنایا گیا تھا۔ تاہم ایسے واقعات اور صورتحال پیدا ہوئی کہ جو لوگ اس پروجیکٹ میں شریک تھے۔ انہوں نے سوچا کہ جس گھوڑے پر داؤ لگا یا گیا تھا، وہ کھوٹا نکلا۔ وہ ہینڈ سم بھی تھا۔ مقبول بھی تھا۔ لیکن اس میں عقل نہیں تھی ۔ سب باتیں برداشت کی جاسکتی ہیں۔ لیکن جب پروجیکٹ کے معماروں نے دیکھا کہ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے تو پھر معماروں کا ذہن تبدیل ہو گیا کیونکہ عمران خان کا اقتدار طویل ہوتا تو ملک دیوالیہ ہو جاتا۔ اگر کوئی ملک دیوالیہ ہو جائے تو پھر اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے اور قومی اثاثوں سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ ذرائع کے بقول بعد کی داستان یہ ہے کہ عمران خان کی اپنی حماقتوں سے انہیں یہ دن دیکھنا پڑے۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے مرکز میں ان کی حکومت گر گئی تھی۔ لیکن ان کے لئے دوبارہ اٹھنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ابھی پی ٹی آئی کی پنجاب ، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں حکومتیں قائم تھیں۔ لیکن احمقانہ سیاسی فیصلے کرتے ہوئے عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں تحلیل کر دیں۔ اگر وہ یہ نالائقیاں نہ کرتے تو عام انتخابات بھی بہت پہلے ہو چکے ہوتے ۔ آخر کار جنرل الیکشن ہو گئے۔ امریکہ سمیت دنیا بھر نے نئی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ آئی ایم ایف بھی مہربان ہو چکا۔ یوں پی ٹی آئی کے سارے کارتوس فیل ہو گئے۔ رہی سہی کثر حالیہ ضمنی الیکشن میں نا کامی نے پوری کر دی۔ اب تحریک انصاف اور عمران خان صرف سوشل میڈ یا پر زندہ ہے۔
ادھر انصار عباسی نے اپنے کالم میں کہا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات کو سلجھانے کیلئے فی الحال تین اہم شخصیات سوچ بچار کر رہی ہیں۔ ان میں دو سابق وفاقی وزرا ہیں اور تیسری شخصیت ایک معروف ریٹائر ڈ تھری اسٹار جنرل ہیں۔ تاہم انہوں نے ان تینوں شخصیات کے نام ظاہر نہیں کیے۔ نہیں معلوم وہ کس ریٹائر ڈ تھری اسٹار جنرل کی بات کر رہے ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ایک ریٹائر ڈ تھری اسٹار جنرل تو مختلف یوٹیوبرز کے ساتھ وی لاگ میں کئی مرتبہ علی الاعلان یہ دعوی کر چکے ہیں کہ وہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تعلقات بہتر بنانے کیلئے اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔ تاہم اس بارے میں جب اہم ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ محض بڑھکیں ہیں۔ اول تو مذکورہ ریٹائرڈ افسر کی متعلقہ ادارے تک رسائی بند ہو چکی ہے۔ بلکہ موصوف کو کچھ عرصہ پہلے تک یہ دھڑکالگارہتا تھا کہ کہیں وہ بھی زیر عتاب نہ آجائیں۔ اس خوف کا اظہار وہ اکثر اپنے قریبی دوستوں سے کرتے رہتے تھے۔ انہی میں سے ایک دوست نے بتایا کہ موصوف نہ صرف پی ٹی آئی کے ڈائی ہارٹ سپورٹر ہیں۔ بلکہ ان کی خواہش تھی کہ اگلی حکومت بھی پی ٹی آئی کی بن جائے۔ اس صورت میں وہ قومی سلامتی کے مشیر کا عہدہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ماضی میں وہ اہم حکومتی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ اب وہ اس طرح کی پیشن گوئیاں کرتے پھر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت محض ڈیڑھ برس تک چلے گی تاہم مببصرین ان دعوؤں کا ایک جملے میں یوں جواب دیتے ہیں کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔

Related Articles

Back to top button