حکومت حاصل کر لینے کے باوجود نون لیگ میں بیانیے کی جنگ کیوں؟

 آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کے بعد مسلم لیگ (ن) کے اندر بیانیے کے معاملے پر اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے بعض سینئر رہنما حکومت میں آنے اور حتیٰ کے دوبارہ الیکشن لڑنے سے بھی گریزاں ہیں۔ایک جانب شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے جاوید لطیف شکوے شکایات کر رہے ہیں تو وہیں رانا ثناء اللہ بھی موجودہ صورتِ حال پر مایوس دکھائی دیتے ہیں۔بعض لیگی رہنماؤں کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ‘ووٹ کو عزت دو’ کا بیانیہ چھوڑنے کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو الیکشن میں ہوا جبکہ بعض رہنما تاحال مخلوط حکومت بنانے پر  تحفظات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلم لیگ (ن) میں چل کیا رہا ہے؟ کیا مسلم لیگ (ن) ابھی تک غیر متوقع انتخابی نتائج کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکی؟ کیا مزاحمتی بیانیے سے پیچھے ہٹنا مسلم لیگ (ن) کے خلاف گیا؟ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ انتخابات میں ناکام ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں میں سے بعض نے کھلے دل سے اپنی شکست قبول کی لیکن کچھ کو اب بھی اپنی ہار ہضم نہیں ہو رہی۔ سلمان غنی کے بقول مسلم لیگ (ن) اس وقت مخلوط حکومت میں ہے اور اس کے پاس بڑے فیصلوں کا اختیار بھی نہیں۔ کیونکہ بڑے فیصلوں کے لیے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) جیسا پلیٹ فارم موجود ہے جس میں آرمی چیف بھی شامل ہیں۔ لہذٰا یہ حکومت نہیں بلکہ ایک بندوبست ہے۔اُن کے بقول ماضی میں جب بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی تو نواز شریف ہی وزیرِ اعظم تھے اور شہباز شریف پنجاب کا محاذ سنبھالتے تھے۔ لہذٰا پارٹی معاملات بھی نواز شریف کی گرفت میں ہوتے تھے اور پارٹی کے اندر بھی کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوتی تھی۔سلمان غنی کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں جب سیاسی کارکن کی بات نہیں سنی جائے گی تو وہ اس طرح اپنے تحفظات کا اظہار میڈیا پر کرتا رہے گا۔

دوسری جانب سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ ماضی میں کئی مشکل ادوار آئے۔ لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) تقسیم کا شکار نہیں ہوئی۔ لیکن اب جب میاں نواز شریف ملک میں موجود ہیں ایسے میں پارٹی کے اندر اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ بعض رہنما وہ ہیں جو مسلم لیگ (ن) چھوڑ چکے ہیں، ان میں شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور چوہدری نثار علی خان شامل ہیں۔ دوسرا وہ گروپ ہے جو پارٹی میں بہت چہیتا سمجھا جاتا تھا۔ ان میں جاوید لطیف اور رانا ثناء اللہ جیسے لوگ شامل ہیں جو اپنے بیانات سے حیران کر رہے ہیں۔اُن کے بقول یہ رہنما ایسے بیانات کیوں دے رہے ہیں، اس حوالے سے چیزیں سامنے نہیں آئیں۔ لیکن اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں سب اچھا نہیں ہے۔ پارٹی کے اندر اختلافی آوازوں کا میڈیا پر آنا پارٹی کے لیے اچھا نہیں ہے۔سلیم بخاری کے بقول سیاسی حلقوں میں یہ گفتگو بھی ہو رہی ہے کہ نواز شریف خود وزیرِ اعظم بن جائیں گے جب کہ پنجاب میں بھی کوئی اور وزیرِ اعلٰی آئے گا۔

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر یہ تاثر بھی ہے کہ پی ٹی آئی کو ریلیف دیا جا رہا ہے۔ چاہے وہ عید سے قبل نو مئی کے 20 ملزمان کی رہائی ہو یا روپوش لوگوں کی واپسی یا مقدمات میں ضمانت کا معاملہ۔اُن کے بقول پارٹی کے اندر ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ‘ڈبل گیم’ کھیل رہی ہے، لہذٰا پارٹی کے بعض رہنما چاہتے ہیں کہ نواز شریف دوبارہ مزاحمتی بیانیہ اپنائیں۔سلیم بخاری کہتے ہیں کہ نواز شریف جب گزشتہ برس لندن سے پاکستان آئے تھے تو اُنہوں نے کہا تھا کہ ملک کو نقصان پہنچانے والوں سے حساب لیا جائے گا۔ لیکن اس کے بعد سے وہ خاموش ہیں۔ لہذٰا نواز شریف پر پارٹی کے اندر سے یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ ایسا بیانیہ اپنائیں جس سے ووٹر کا اعتماد دوبارہ بحال ہو۔

دوسری جانب سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ انتخابات ہارنے والے لیگی رہنما میڈیا میں بھڑاس نکال کر اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں۔ پارٹی کو چاہیے کہ ان رہنماؤں کو ڈسپلن میں لائیں ورنہ اس سے نقصان ہو گا۔مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ مزاحمت کے بیانیے کے ساتھ اقتدار حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لہذٰا مزاحمت کا بیانیہ چھوڑنے کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کا اپنا تھا اور اسی وجہ سے ہی پارٹی اقتدار میں ہے۔

Related Articles

Back to top button