امریکہ، پاک ایران تجارتی تعلقات کے اتنا مخالف کیوں ہے؟

امریکی دھمکیوں کے باوجود پاکستان اور ایران نے دوطرفہ تجارت کا حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے اور حکومتِ پاکستان پرامید ہے کہ آئندہ پانچ برس کے دوران ایران کے ساتھ تجارت کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔ تاہم  دوسری جانب ایرانی صدر کے دورے کے دوران ہونے والے معاہدوں پر امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کو سخت پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو ایران سے کسی بھی قسم کے تجارتی اور معاشی معاہدے پر عملدرآمد سے پہلے سخت پابندیوں بارے خبردار رہنا چاہیے۔ پاکستان نے ایران سے تجارتی تعلقات بڑھانے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے تو اسے ایران جیسی مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

خیال رہے کہ بدھ کو ایرانی صدر کے دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں دونوں ملکوں نے فری ٹریڈ معاہدے کو حتمی شکل دینے، سیاسی اور تجارتی کمیٹیوں کے اجلاس اور جوائنٹ اکنامک کمیشن کے 22 ویں جائزے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت باہمی تجارت کا حجم دو ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے۔ جس میں سے 1.4 ارب ڈالر کی مصنوعات ایران پاکستان کو بھجواتا ہے جبکہ پاکستان کی برآمدات صرف 8.8 ملین ڈالر کے قریب ہیں۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان دس ارب ڈالر کی باہمی تجارت کا ہدف حقیقت پسندانہ ہے اور دونوں ملکوں کو یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے کیا اقدامات کرنا ہوں گے؟ اس حوالے سے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی پابندیوں کے شکار ملک ایران کے ساتھ تجارت کے لیے حکومتِ پاکستان کو روایتی عمل سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا تاہم سنجیدہ کوششوں سے ایران کے ساتھ تجارت کو بڑھا کر دس ارب ڈالر کا باہمی تجارت کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔

لیکن سابق سیکریٹری تجارت و خزانہ یونس ڈاگھا کہتے ہیں ایران کے ساتھ تجارت میں تجارتی توازن پاکستان کے حق میں نہیں ہوگا۔ ان کے بقول ایران کی برآمدی اشیاء اسٹیل، پلاسٹک اور پٹرولیم مصنوعات کے مقابلے میں پاکستان صرف زرعی اجناس اور ٹیکسٹائل ہی برآمد کرسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خطے میں تجارت محدود ہے لیکن تجارت کے فروغ کے وسیع مواقع اور ذرائع موجود ہیں۔ یونس ڈاگھا کے مطابق ایرانی صدر کے حالیہ دورۂ پاکستان کے دوران پاک ایران سرحد پر اکنامک زون بنانے پر اتفاق ہوا ہے جس سے پاکستان کو فائدہ ہو گا۔ پاکستان سرحدی علاقے میں موجود معدنیات کو ایران کی سستی توانائی کی مدد سے فائدہ اٹھا کر برآمدی مصنوعات بڑھا سکتا ہے۔

دوسری جانب تاجر رہنما مرزا اختیار بیگ کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ دوطرفہ تجارت کا حجم 10 ارب ڈالر تک لے جانا ایک بڑا ہدف ہے جس کے لیے بینکنگ چینل کا آغاز، غیر قانونی تجارت کی روک تھام اور بارٹر ٹریڈ کو فروغ دینا ہوگا۔مرزا اختیار بیگ کے مطابق ایران سے غیر قانونی تجارت سے مقامی صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ملکی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ پر کام نہیں کیا جب کہ بھارت اور ترکی ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے ذریعے اپنی دوطرفہ تجارت کو بڑھا رہے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کو بھی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کو فروغ دینا چاہیے تاکہ امریکی پابندیوں سے بھی بچا جا سکے۔

دوسری جانب شہباز حکومت پرامید ہے کہ تجارتی پابندیوں کے باوجود ہمسایہ ملک کے ساتھ تجارت میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ دوطرفہ تجارتی حجم کو دس ارب ڈالر تک لے جایا جاسکتا ہے۔عالمی پابندیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ احسن اقبال نے کہا کہ ایران جن بین الاقوامی ضابطوں کے تحت دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کر رہا ہے اسی قسم کی گنجائش پاکستان کو بھی حاصل ہوگی۔ تاہم سابق سیکریٹری تجارت یونس ڈاگھا کے مطابق ایران کے ساتھ تجارت کے لیے ضروری ہوگا کہ امریکہ سے تجارتی پابندیوں پر چھوٹ حاصل کی جائے۔ان کے بقول پاکستان نے ایران کے ساتھ تجارت کے لیے عائد عالمی تجارتی پابندیوں کو سفارتی اور مرکزی بینک کی سطح پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جس طرح بھارت، ترکی اور آذربائیجان پابندیوں کے باوجود ایران سے تجارت کر رہے ہیں، اسلام آباد کو بھی واشنگٹن سے چھوٹ حاصل کرنی چاہیے۔لیکن مرزا اختیار بیگ کہتے ہیں کہ بارٹر ٹریڈ پر تجارتی پابندیاں عائد نہیں ہوتیں۔ اس لیے دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اشیاء کو بارٹر ٹریڈ کی فہرست میں شامل کریں۔انہوں نے کہا کہ اگر بھارت اور ترکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت کرسکتے ہیں تو پاکستان کے لیے بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن اس کے لیے روایتی طریقوں سے ہٹ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

Back to top button