پرویزالٰہی نے مونس کا بالکابن کر اپنی سیاست کاجنازہ کیسے نکالا؟

عمرانڈو ہو کر اپنی عزت اور ساکھ کا جنازہ نکالنے والے سابق وزیر اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے بھگوڑے بیٹے مونس الٰہی کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔کل تک پنجاب کی سیاست کے لیے اہم سمجھے جانے والے چوہدری پرویز الہی آج سیاسی بساط پر کہیں دکھائی نہیں دیتے۔

حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر بیٹھنے والے اور سنہ 2013 میں پاکستان کے پہلے نائب وزیر اعظم بننے والے چوہدری پرویز الہی ضمنی انتخاب میں اپنے آبائی شہر سے صوبائی نشست بھی نہ جیت سکے ہیں اور ان کے اپنے ہی خاندان کے مخالف امیدوار اور بھتیجے موسیٰ الہی نے انھیں بھاری فرق سے ہرا دیا۔

مفاہمت، وضعداری اور پنجاب کی سیاست کے لیے اہم سمجھے جانے والے چوہدری پرویز الہی کی انتخابی سیاست میں شکست کے بعد چند سوالات نے جنم لیا ہے کہ کیا یہ انتخابی نتیجہ گجرات کے سیاسی منظر نامے میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، کیا چوہدری پرویز الہٰی کی سیاست بند گلی کی طرف چلی گئی ہے یا وہ دوبارہ قومی سیاسی منظر نامے پر ابھریں گے اور یہ کہ کیا ان کی نئی سیاسی جدوجہد کا فائدہ ان کے بیٹے مونس الہی کو پہنچے گا؟

یاد رہے کہ پرویز الہی پاکستان تحریک انصاف جبکہ موسی الہی مسلم لیگ ق کے امیدوار تھے۔ پرویز الہی اس وقت جیل میں ہیں جبکہ ان کے بیٹے مونس الہی سیاسی مقدمات کے پیش نظر خود ساختہ جلاو طنی اختیار کرتے ہوئے سپین میں موجود ہیں۔

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق گجرات کے گاؤں نت سے تعلق رکھنے والے چودھری خاندان کا سیاسی ستارہ مشرف دور میں عروج پر پہنچا جبکہ عمران خان کے دور حکومت میں یہ ستارہ گراوٹ کا شکار ہو گیا اور اس ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں اس خاندان کے دو بڑے سیاسی نام چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہی کی سیاسی راہیں جدا ہو گئیں۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں پرویز الہی 2018 سے 2022 تک پنجاب اسمبلی کے سپیکر رہے اور سنہ 2023 میں انھوں نے اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ ق سے راہیں جدا کر لی اور اپنے بیٹے مونس الہی سمیت پارٹی کے دس ارکان کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی اور اس کے صدر بن گئے۔

مسلم لیگ ق کے رہنما کامل علی آغا کے مطابق چوہدری خاندان میں جائیداد کو لے کر کوئی ذاتی تنازعات نہیں بلکہ ذاتی سیاسی مفادات ہیں۔ چوہدری پرویز الہی اور چوہدری شجاعت میں آج بھی کوئی تنازع نہیں بلکہ یہ مسائل تیسری نسل یعنی اولادوں میں ہیں اور دونوں طرف یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے سیاسی حقوق دوسرے نے چھین لیے۔وہ کہتے ہیں کہ کچھ ذاتی خاندانی فیصلوں کے باعث دونوں بڑوں نے اپنی ساکھ کھو دی اور بچوں کے فیصلے ان کے فیصلوں پر حاوی ہو گئے۔

دوسری جانب چوہدری پرویز الہی کے صاحبزادے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما مونس الہی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے انھوں نے ضرور اپنے والد پر زور دیا تھا لیکن بعدازاں تمام فیصلے انھوں نے خود کیے تھے۔ مونس الہی کے مطابق اس وقت چوہدری شجاعت، چوہدری پرویز الہی اور ان کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات میں چوہدری شجاعت نے مشورہ دیا تھا کہ ’یہ بہت بہتر ہے کہ نواز شریف کی بجائے عمران خان وزیر اعظم بن جائے۔‘انھوں نے اپنے انٹرویو کے دوران کہا کہ وہ، اُن کے والد اور اُن کی پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں لیکن اُن کے والد فوج کے رویے پر افسردہ ہیں۔

تاہم اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چوہدری پرویز الہی اور مونس الہی دوبارہ سیاست میں ابھر پائیں گے؟سینئیر صحافی و تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی کے مطابق ضمنی انتخابات میں گجرات کے علاوہ کسی اور حلقے میں دھاندلی کی شکایات نہیں آئی اور اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو یہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گا اور میرے خیال میں چوہدری پرویز الہی اور مونس الہی کو اس شکست سے نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ ان کے آبائی حلقے میں ان کی پذیرائی میں اضافہ ہو گا۔پرویز الہی کی نئی سیاسی جدوجہد کے سوال پر مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی نظر اپنے بیٹے مونس الہی کی سیاست پر ہے، وہ ان کی سیاست کر رہے ہیں بالکل اسی طرح جیسے نواز شریف کی نظر مریم نواز کی سیاست پر ہیں۔

چوہدری خاندان میں دوری اور رقابتوں کے سوال پر مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ چوہدری برادران میں جو کچھ ہو چکا ہے اس کی نہ تو کوئی توقع کر رہا تھا اور نہ کسی کو اندازہ تھا کہ دونوں میں اس حد تک لڑائی ہو سکتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہی اور چوہدری شجاعت کا خاندانی تعلق بہت گہرا ہے مگر اب سیاست قید و بند کا نام نہیں رہی اور ان کے بچے بڑے ہونے سے ذاتی مفادات بھی آ گئے۔

دوسری جانب سینئیر صحافی ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست ناممکنات کا کھیل ہے اور ضمنی انتخاب کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرنا کہ ان کی سیاست ختم ہو گئی یا وہ دوبارہ اتنی مقبولیت حاصل نہیں کر سکیں گے غلط ہو گا۔وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی انھیں موقع ملے گا تو پرویز الہی اور مونس الہی واپس ابھریں گے، وہ کہتے ہیں کہ اس ضمن میں مشرف دور میں حمزہ شہباز کی مثال سب کے سامنے ہیں کہ وہ وقت ان پر مشکل گزرا لیکن اس کے بعد انھوں نے پنجاب چلایا اور وزیر اعلیٰ بھی بنے۔ ’اسی طرح کل کو مونس الہی بھی مستقبل میں وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔‘

کیا پرویز الہی اور مونس الہی کی سیاست میں پچھاڑ کی وجہ خاندانی اختلاف ہیں کہ سوال پر ماجد نظامی تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک یہ معاملہ پرویز الہی اور شجاعت حسین کے درمیان تھا تو معاملات ٹھیک چل رہے تھے لیکن جب یہ سیاست خاندان کی تیسری نسل کو منتقل ہوئی تو عدم توازن کی کیفیت پیدا ہوئی۔’چوہدری سالک حسین اور چوہدری شافع حسین کو یہ شکایت تھی کہ مونس الہی اور چوہدری وجاہت کے بیٹوں کو سیاسی و پارٹی معاملات میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ خاندان میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ مونس الہی میں سیاسی سمجھ بوجھ زیادہ ہے اس لیے شجاعت حسین بھی اپنے بیٹوں کو آگے نہیں لاتے تھے۔

Related Articles

Back to top button