کیا پرویز خٹک اور محمود خان واپس پی ٹی آئی میں جانے والے ہیں؟

سانحہ 9 مئی کے بعد جہاں ملک بھر سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے عمرانڈوپن سے توبہ تائب ہوتے ہوئے پی ٹی آئی سے راہیں جدا کیں وہیں صوبہ خیبرپختونخوا سے پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے نہ صرف وفاداریاں تبدیل کیں بلکہ عمران خان پر ریاست دشمنی کے الزامات عائد کرتے ہوئے انھیں ہدف تنقید بھی بنایا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی پرویز خٹک اور سابق وزیراعلٰی محمود خان نے نہ صرف پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی بلکہ پی ٹی آئی کے خلاف بالخصوص عمران خان کے خلاف بیانات دینے میں پیش پیش رہے۔مگر 8 فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی بدترین ناکامی کےبعد حالات یکسر بدل گئے۔ پرویز خٹک نے پارٹی کی سربراہی سے استعفی دے دیا اور قیادت سابق وزیراعلی خیبرپختونخوا محمود خان کے پاس آگئی۔ اب پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی موجودہ قیادت اپنی جماعت کو تحریک انصاف میں ضم کرنے کیلئے کوشاں ہے تاہم ابھی تک پی ٹی آئی قیادت پارلیمنٹیرینز کے باغیوں پر دوبارہ اعتماد کرتی دکھائی نہیں دیتی۔

اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق محمود خان نے پارٹی کی چیئرمین شپ سنبھالتے ہی نہ صرف عمران خان کی حمایت میں بیانات دینا شروع کر دیے بلکہ مخصوص نشستوں کے معاملے پر پی ٹی آئی کے آزاد ایم پی ایز کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی پیشکش بھی کی۔سابق وزیراعلٰی محمود خان نے 4 اپریل کو سوات میں میڈیا کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’تحریک انصاف میرے گھر جیسی ہے جس کو چھوڑ کر میں افسردہ ہوں۔ عمران خان پہلے بھی میرے لیڈر تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ ہم پی ٹی آئی سے الگ ہو کر کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوئے بلکہ اپنی پارٹی بنائی۔‘ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے چیئرمین محمود خان نے بتایا کہ ’ہم نے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو شمولیت کے لیے اپنی پارٹی کی پیشکش کی تھی کیونکہ ہم چاہتے ہیں جمہوریت کو فروغ ملے۔‘

تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے رہنما واپس پی ٹی آئی میں شامل ہونا چاہتے ہیں؟ اور کیا تحریک انصاف ان باغوں رہنماؤں کو دوبارہ قبول کرنے پر آمادہ ہو گی؟

پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے ترجمان ضیاء اللہ بنگش کے مطابق ’ہمارا لیڈر عمران خان ہی ہے۔ اگر ہمارے مذاکرات ہوئے تو پہلی ترجیح پی ٹی آئی ہی ہوگی کیونکہ عمران خان کا نظریہ ہمارا نظریہ ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ اگر بات نہ بنی تو ہم پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے ساتھ وابستہ رہ کر اپنی سیاست کریں گے مگر کسی دوسری پارٹی میں جانے کا سوچیں گے بھی نہیں۔‘ان کے مطابق ’پرویز خٹک کی وجہ سے پی ٹی آئی چھوڑنا پڑی جو کہ میری زندگی کا غلط فیصلہ تھا۔ پرویز خٹک خود بھی ڈوب گئے ہمیں بھی اپنے ساتھ ڈبو دیا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ محمود خان کی قیادت میں پہلے بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات ہوئے تھے جو نامعلوم وجوہات کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔ترجمان پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے مطابق پرویز خٹک کا اب اس جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

کیا پاکستان تحریک انصاف نے باغی رہنماؤں کی واپسی کے دروانے بند کر دئیے ہیں؟  اس سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریک انصاف کے ترجمان ایڈوکیٹ معظم بٹ کا کہنا ہے کہ باغی رہنماؤں کی واپسی کے حوالے سےجماعتی طور پر ایک طریقہ کار موجود ہے جس کے تحت ان معاملات کو دیکھا جا رہا ہے۔’مثال کے طور کون سی ایسی شخصیات ہیں جو اپنی مرضی سے پارٹی کو چھوڑ کر گئے یا پھر زور زبردستی یا ڈرا دھمکا کر جماعت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ پارٹی کی تحصیل اور ضلعی سطح کی قیادت حقیقت کی بنیاد پر کیس کو پرکھے گی جس کے بعد صوبائی قیادت ان معاملات کا جائزہ لے گی۔‘ترجمان معظم بٹ نے بتایا کہ ’جس رکن پر الزام ہے اس کو شنوائی کا موقع دیا جائے گا۔ چونکہ پارٹی اندر سے مضبوط ہے اس لیے پارٹی قیادت چاہتی ہے کہ ہر کسی کو صفائی کا موقع دیا جائے۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کا قیام زور زبردستی سے کروایا گیا جس کا وجود الیکشن میں بدترین شکست کے بعد خطرے میں پڑگیا ہے۔ پرویز خٹک نے الیکشن سے پہلے بڑے دعوے کیے کیونکہ ان کو یقین تھا کہ صوبے میں سیٹیں نکال لیں گے مگر خلاف توقع الیکشن نتائج کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ’پرویز خٹک کی پی ٹی آئی میں واپسی ناممکن نظر آرہی ہے کیونکہ پارٹی کے اندر لیڈر شپ ان کے خلاف ہے، تاہم محمود خان کے لیے پی ٹی آئی میں نرم گوشہ موجود ہے۔ محمود خان نے عمران خان یا پی ٹی آئی کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ انہوں نے پارٹی چھوڑنے کے بعد بھی کسی پر تنقید نہیں کیا۔ محمود خان کی واپسی کا امکان موجود ہے۔‘ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں واپسی پارلیمنٹیریز کے رہنماؤں کی خواہش ہوسکتی ہے مگر پی ٹی آئی کو اب ان کی ضرورت نہیں ہے۔’دوسری بات یہ ہے کہ مشکل وقت میں پارٹی کو چھوڑ کر جانے والوں کے خلاف پی ٹی آئی کے اندر سخت موقف موجود ہے اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ ان کو کوئی جگہ ملے گی۔‘

واضح رہے کہ سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ ’پی ٹی آئی ان کی شناخت ہے کہ اگر عمران خان نے ان کو تسلیم کیا تو ٹھیک ہے ورنہ وہ گھر بیٹھ جائیں گے۔‘

Related Articles

Back to top button