مولانا کا پی ٹی آئی کے بغیر حکومت مخالف تحریک چلانے کا فیصلہ

تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمٰن کے اتحاد کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹتی دکھائی دیتی ہے۔ جہاں ایک طرف کٹر عمرانڈوز کی جانب سے تاحال مولانا فضل الرحمٰن کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے وہیں  تحریک انصاف میں عمران خان کے قریب سمجھے جانے والے ایک بڑے گروپ نے مولانا فضل الرحمٰن کو ساتھ لے کر چلنے کی شدید مخالف کر دی ہے۔ جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف تحریک میں سولو فلائٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن اور پی ٹی آئی کا اتحاد مشکل ہے لیکن دونوں جماعتیں مل گئیں تو یہ حکومت کیلئے اچھی خبر نہیں ہوگی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جے یو آئی پر مشتمل اتحاد بن گیا تو سڑکوں پر موثر احتجاج کرسکتی ہیں تاہم  مولانا فضل الرحمٰن اور پی ٹی آئی کے اتحاد میں ایک مشکل ماضی میں دونوں جماعتوں کا ایک دوسرے کے خلاف رویہ ہے، ماضی قریب میں ایک دوسرے پر سنگین الزام تراشیوں کی وجہ سے مولانا فضل الرحمٰن اور پی ٹی آئی کا ساتھ چلنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

سینئڑ صحافی اعزاز سید کے مطابق آٹھ فروری کے انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر مولانا فضل الرحمٰن کے غصے کا ہدف پرانی اتحادی جماعتیں بن رہی ہیں،مولانا فضل الرحمٰن کی خواہش ضرور ہوگی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر موثر احتجاج کریں تاہم مولانا فضل الرحمٰن اور پی ٹی آئی کے اکٹھے ہونے سے تحریک انصاف کیلئے پرابلم ہوسکتی ہے۔ اسی لئے  تحریک انصاف میں عمران خان کی کچن کیبنٹ مولانا فضل الرحمٰن کو ساتھ لے کر چلنے کی شدید مخالف ہے،

دوسری جانب سینئر صحافی سلیم صافی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن اسٹیبلشمنٹ، نواز شریف اور آصف زرداری سے بہت زیادہ نارا ض ہیں، مولانا فضل الرحمٰن نہ صرف احتجاج کے ذریعہ وفاقی حکومت کو رخصت کرنا چاہتے ہیں بلکہ مولانا فضل الرحمٰن سمجھتے ہیں خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے حق میں دھاندلی ہوئی ہے۔ جس کے بعد مولانا کا تحریک انصاف کے ساتھ مل کر مبینہ دھاندلی کیخلاف احتجاج کرنا نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے مولانا کیخلاف بیان بازی جاری رہنے کے بعد جے یو آئی نے حکومت مخالف تحریک میں سولو فلائٹ لینے اور کراچی اورپشاور کے ملین مارچ میں پی ٹی آئی سمیت کسی بھی اور جماعت کو حصہ دار نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے، یوں مولانا فضل الرحمٰن کی قومی اسمبلی میں تقریر کے بعد جے یو آئی اور تحریک انصاف کی مشترکہ جدوجہد کا جو تاثر سامنے آیا تھا اسے اس فیصلے نے یکسر زائل کر دیا ہے۔ جے یو آئی قیادت کے مطابق اب حکومت مخالف تحریک میں جھنڈا بھی جے یوآئی کا ہو گا اور ڈنڈا بھی جے یو آئی کا ہی ہو گا،حادثاتی وزیر اعلیٰ بننے والے گنڈا پور آگاہ رہیں کہ بے نام و نشان پارٹی پی ٹی آئی کو دلوایا گیا مینڈیٹ جے یو آئی کے ”مرحون منت“ ہے، کے پی کےحلقے کھلنا شروع ہو گئے تو پی ٹی آئی کی موجودہ سیٹیں بھی ختم ہو جائیں گی ، ان کا مزید کہنا ہے کہ اسد قیصرسمیت کسی کا جے یو آئی قیادت سے کوئی تازہ رابطہ نہیں ہوا،تحریک انصاف کی قیادت کے بیانات میں تضادات ہیں، یہ لوگ گلے اورپاؤں پڑتے ہیں اور ٹھوڑی کو بھی ہاتھ لگاتے ہیں، پہلے اپنا مؤقف ایک کر یں پھر دوسروں سے بات کریں۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے بغیر مولانا کی جانب سے حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے اعلان کے بعد حکومت نے بھی مظاہرین کے ساتھ ہلکا ہاتھ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان ہمارے پرانے اتحاد ہیں ان سے بات کریں گے۔ تاہم ان کے مارچ سے سختی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ رانا ثنااللہ نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمان سے احترام کارشتہ ہے،وہ ہمارے ساتھی رہے ہیں، نواز شریف اور شہباز شریف سے مولانا فضل الرحمان کے ذاتی تعلقات ہیں۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان سے بات ہوتی رہی ہے اور ہوگی،مولانا کی سمجھنے اور اپنی بات سمجھانے کی کوشش کریں گے، ان کے مارچ سے سختی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کریں گے۔تحریک انصاف سے متعلق بات کرتے ہوئے رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ ہو تو بات کی جاسکتی ہے، جب تک سب سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گے سیاسی عدم استحکام رہےگا۔

Related Articles

Back to top button