اسٹیبلشمنٹ نے مذاکرات کے مطالبے پر پی ٹی آئی کو جھنڈی دکھادی

پاکستان میں رواں برس انتخابات کے بعد تحریکِ انصاف نے نہ صرف الیکشن میں دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کیے تھے بلکہ ایوان میں بھی اس کے ارکان نے جارحانہ انداز اختیار کیا تھا۔ تاہم اب اسی جماعت کی جانب سے حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ سے بات چیت کے اشارے دیے جارہے ہیں۔پی ٹی آئی رہنماؤں کے حالیہ بیانات کے بعد ملک کے سیاسی منظر نامے میں ان دنوں پی ٹی آئی کے اسٹیبلیشمنٹ سے رابطے اور مذاکرات کی خبریں زیر بحث ہیں۔ تاہم مبصرین کے مطابق اسٹیبلیشمنٹ کسی بھی صورت تحریک انصاف سے مذاکرات پر آمادہ نہیں اور مقتدر حلقوں نے پی ٹی آئی قیادت پر واضح کر دیا ہے کہ وہ قطعا اس طرح کے مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے اور جہاں تک پی ٹی آئی کے مقدمات میں ریلیف کا سوال ہے انھیں ریلیف عدالتوں سے ہی مل سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے سیاسی جماعتوں اور فوج سے مذاکرات کے بیانات ایسے وقت میں دیے جارہے ہیں جب 9 مئی کے واقعات کو ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔

یاد رہے کہ نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں ہونے والے مظاہروں میں پر تشدد واقعات بھی پیش آئے تھے اور کئی شہروں میں فوجی تنصیبات پر بھی حملے کیے گئے تھے۔عمران خان اور پی ٹی آئی کے متعدد رہنما ان پرتشدد مظاہروں اور فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ تاہم وہ ان مظاہروں میں ملوث ہونے کے تردید کرتے ہیں۔

تاہم تحریک انصاف کی جانب سے صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے مطالبے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات کے بیانات کیا عملی شکل اختیار کریں گے؟ اور کیا مستقبل میں پاکستان کے سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان کوئی نتیجہ خیز بات چیت شروع ہوگی یا نہیں؟ اس پر مبصرین کی رائے منقسم ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی بجائے اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات چاہتی ہے تاہم فوج کی جانب سے ایسے اشارے نہیں ملے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے بات چیت پر آمادہ ہے۔

تجزیہ نگار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بات چیت کے یہ بیانات سیاسی ضرورت کے تحت دیے جارہے ہیں اور تاحال یہ بیانات ہی ہیں، مستقبل میں مذاکرات کے لیے کوئی کوئی فریم ورک طے نہیں ہوا ہے۔ تاہم سیاسی جماعتوں کی آپسی گفتگو اس وقت تک بے معنی رہے گی جب تک اسے فوج کی تائید حاصل نہیں ہوتی ہے۔ان کے بقول تاحال ایسے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں کہ فوج بات چیت چاہتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے سے فوج کیا سوچ رہی ہے؟ اس کا ابھی اندازہ نہیں ہے لیکن عمران خان سے اسٹیبلیشمنٹ کی ناراضی اپنی جگہ قائم ہے۔

دوسری جانب صحافی عامر الیاس رانا کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ سے بات چیت کے حوالے سے بیانات میں ابہام پایا جاتا ہے اور ہر رہنما دوسرے رہنما سے مخلتف بات کررہا ہے۔عمران خان صرف اور صرف فوج سے ہی مذاکرات چاہتے ہیں اور اسی مقصد کے تحت وہ فوج مخالف بیانات کے زریعے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ اپنی مقبولیت اور سخت بیانات کے زریعے اسٹیبلیسمٹ کو مذاکرات پر مجبور کیا جائے اور پھر ان سے سیاسی سودے بازی کی جائے۔عامر الیاس رانا نے کہا کہ فوج کی جانب سے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے معاملے پر تاحال کوئی واضح اشارے سامنے نہیں آئے ہیں اور نہ ہی کسی فرد نہ آج تک یہ کہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے عمران خان سے بات چیت کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ شہباز شریف کی موجودہ حکومت سے فوج کو کوئی ایسی شکایت نہیں۔ البتہ سیاسی بے یقینی کا ماحول ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے فوج حکومت کی پشت سے ہٹ کر پی ٹی آئی سے مذاکرات نہیں چاہے گی۔وہ کہتے ہیں کہ فوج کی جانب سے پی ٹی آئی کو یہی کہا جارہا ہے کہ حکومت سے بات کریں اور جہاں تک مقدمات میں ریلیف کا سوال ہے؟ وہ انہیں عدالتوں ہی سے ملے گا۔

Related Articles

Back to top button