کیا چیف جسٹس فائز عیسیٰ جنرل فیض حمید کا رگڑا نکالیں گے؟

فیض آباد دھرنا کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی ٹھکائی یقینی دکھائی دیتی ہے۔ سپریم کورٹ نے تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے سنہ 2017 میں اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے کے معاملے پر قائم انکوائری کمیشن کی عدالت میں پیش کردہ رپورٹ کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’بظاہر لگتا ہے کہ اس کمیشن کا مینڈیٹ فیض حمید کو بری کرنا تھا۔‘ اگر فیض آباد دھرنا کیس پر عمل کرتے تو شاید نو مئی کے واقعات نہ ہوتے۔

خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر قائم کیے گئے اس انکوائری کمیشن نے 15 نومبر 2023 میں اپنا کام شروع کیا تھا اور سپریم کورٹ نے دو مرتبہ انکوائری کمیشن کو ایک ایک ماہ کی توسیع دی تھی لیکن اس کے باوجود بھی وفاقی حکومت کی طرف سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جع نہیں کروائی جا رہی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ آبزرویشن دی تھی کہ جب اس انکوائری کمیشن کی رپورٹ مکمل ہو کر سپریم کورٹ میں جمع کروائی جائے گی تو اس کے بعد ہی فیض آباد دھرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف نطرثانی کی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔اس انکوئری کمیشن کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ ان عوامل کی نشاندہی کریں جو فیض آباد دھرنے کے پیچھے کار فرما تھے۔

تاہم پیر کو ہونے والی سماعت میں اس انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سپریم کورٹ کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ رپورٹ تیار کرنے والوں کے ذہن میں کیا تھا، کیونکہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کمیشن کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اُن کی ذمہ داری کیا تھی۔چیف جسٹس نے کمیشن کی رپورٹ کو مایوس کن قرار دیتے اور کمیشن کی رپورٹ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ بظاہر کمیشن نے یہ رپورٹ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر تیار کی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ انھیں یہ رپورٹ پڑھ کر مایوسی ہوئی۔کمیشن نے رپورٹ میں کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے دھرنے کے ذمہ دار نہیں تھے بلکہ پنجاب حکومت ذمہ دار ہے۔ کمیشن یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا، کمیشن کی تمام توجہ صرف اس بات پر تھی کہ مظاہرین کو پنجاب سے اسلام آباد کیوں آنے دیا گیا، کمیشن نے سارا نزلہ پنجاب حکومت پر گرایا ہے۔‘چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’کمیشن کو کس بات کا خوف تھا اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انکوائری کمیشن کو پنجاب حکومت سے کوئی بغض ہے۔ یہ رپورٹ اس وقت کی پنجاب حکومت کے خلاف لکھی گئی ہے اور اس میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی ہے۔‘

عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق کمیشن کی پیش کردہ رپورٹ میں پاکستان فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کو بری کیے جانے پر کہا کہ ’آؤٹ آف دی وے جا کر جنرل فیض حمید کو رپورٹ میں بری کیوں کیا جا رہا ہے؟ بظاہر کمیشن کا مینڈیٹ فیض حمید کو بری کرنا تھا۔‘‘

عدالت عظمیٰ نے کمیشن کی پیش کردہ رپورٹ میں اس دھرنے میں شریک مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے بھی تفتیش نہ کرنے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کیا کمیشن نے ٹی ایل پی کی طرف سے کسی کو بلایا؟‘’شاید ٹی ایل پی والے ان کی معاونت کر دیتے۔ ان کو بلاتے ہوئے انھیں ڈر لگ رہا تھا۔ جن سے متعلق انکوائری کر رہے تھے ان کا مؤقف لے لیتے۔ ان کو بھی نہیں بلایا گیا جن کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا۔ اسلحہ لانے والوں کی نیت تو واضح تھی کہ وہ پر امن مظاہرین نہیں تھے۔‘

سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پر تحفظات بارے لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شاہ خاور کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیشن ایک مرتبہ ایک رپورٹ کو حتمی شکل دے دے تو پھر حکومت وقت کے پاس یہ کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اس کمیشن کو اپنی فائنڈنگز پر دوبارہ نظر ثانی کرنے کا کہے۔انھوں نے کہا کہ انکوائری کمیشن اپنا فیکٹ فائنڈنگز دیتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ان کی سفارشات پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔

Related Articles

Back to top button