6ججوں کے عدلیہ پر ایجنسیوں کے دباؤ کے دعوے جھوٹے نکلے

سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6؍ ججز کے دعووں اور سپریم کورٹ کے بعض ججز کی جانب سے عدلیہ کے معاملات میں ایجنسیوں کی مسلسل مداخلت کے حوالے سے مشاہدے کے برعکس، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ضلعی عدلیہ کا اصرار ہے کہ وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت کسی بیرونی مداخلت کے بغیر آزادانہ طور پر کام کر رہی ہے۔ اپنی ایک رپورٹ میں انصار عباسی کا مزید کہنا ہے کہ جس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6؍ ججز نے اپنے خط میں ضلعی عدالتوں کے ججز کو مبینہ طور پر دی گئی دھمکیوں اور ایجنسیوں کی جانب سے ضلعی عدلیہ کے عدالتی امور میں مداخلت کے حوالے سے ذکر کیا تھا، اس وقت متعلقہ ضلعی اور سیشن ججز نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ اپنی رسمی خط و کتابت میں ایسے واقعات کی تصدیق نہیں کی تھی۔

انصار عباسی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6؍ ججز کے خط میں لکھا تھا کہ 3؍ مئی 2023ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈسٹرکٹ ایسٹ اسلام آباد کے انسپکشن جج نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ ضلعی عدالت کے ججز کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو دھمکیاں دی گئی ہیں اور ان کے گھر پر ڈرانے کے غرض سے پٹاخے پھینکے گئے ہیں۔ انصار عباسی کے مطابق اس انکشاف کے بعد ایسٹ ڈویژن کی نگرانی کرنے والے متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو فوری طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلایا گیا تاکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کی طرف سے ضلعی عدلیہ کے کام میں مداخلت کی ان رپورٹس کی تصدیق کی جا سکے جو انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے انسپکشن جج کے ساتھ شیئر کی تھیں۔ انہوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور عدالت کے ایک اور جج کی موجودگی میں ان اطلاعات کی تصدیق کی۔ انصار عباسی کے بقول مذکورہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو پنجاب بھیجنے سے قبل آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی بنا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کر دیا گیا، اس سے پہلے وہ ڈیپوٹیشن پر جوڈیشل افسر تھے۔ اب وہ بہاولپور میں تعینات ہیں۔

انصار عباسی کا مزید کہنا ہے کہ اب معلوم ہوا ہے کہ اس وقت کے متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عطا ربانی نے 5 مئی کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں کسی دھمکی، ڈرانے دھمکانے یا پٹاخوں کے واقعے کا ذکر ہے اور نہ عدالتی امور میں مداخلت کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو اطلاع دی ہے کہ تمام عدالتی افسران آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان کی رپورٹ میں لکھا ہے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ڈویژن ایسٹ میں کام کرنے والے تمام جوڈیشل افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو اپنے چیمبر میں نہ آنے دیں۔ جوڈیشل افسران آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں، کسی کو بھی چیمبر میں آنے کی اجازت نہیں دے رہے اور بلا خوف و خطر کام کر رہے ہیں۔ انصار عباسی کے مطابق ایک دن بعد، یعنی 6؍ مئی 2023 کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد ویسٹ نے بھی چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں بھی یہی لکھا ہے کہ عدالتی ملازمین اپنی ذمہ داریاں آزادانہ انداز سے انجام دے رہے ہیں، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ڈویژن ویسٹ اسلام آباد میں تعینات تمام جوڈیشل افسران کو سخت ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے چیمبر میں کسی بھی شخص سے ملاقات نہ کریں، وہ بلا خوف و خطر یا کسی بھی دباؤ سے آزاد ہو کر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

انصار عباسی کے بقول اسلام آباد کی ضلعی عدلیہ کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6؍ ججز نے لکھا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز نے 12؍ فروری 2024ء کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک خط لکھا تھا جس میں ضلعی عدلیہ کے ججز کے فرائض کی انجام دہی اور کام کاج کی تقسیم، ان کی خود مختاری اور آزادی کو مجروح کرنے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کی مداخلت کے حوالے سے ریکارڈ کیے بیانات کا تذکرہ تھا۔ تاہم بعد ازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ویسٹ اسلام آباد اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ایسٹ اسلام آباد نے 13؍ فروری 2024ء کو ضلعی عدلیہ کے کام کاج کے حوالے سے رپورٹ بھیجی جس میں انہوں نے انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت کسی بھی بیرونی مداخلت کی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ سول اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد ویسٹ میں کام کرنے والے تمام جوڈیشل افسران کے کام اور طرز عمل کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں، تمام جوڈیشل افسران انصاف کی فراہمی کے حوالے سے اپنے فرائض آزادانہ اور میرٹ پر بلا خوف و خطر اور کسی بیرونی اثر و رسوخ کے بغیر انجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی عدالتی معاملے میں کسی ایجنسی کے اہلکار نے ان سے رابطہ کیا اور نہ ان کا کام کاج کسی ادارے کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔

Related Articles

Back to top button