کیا چیف جسٹس عیسیٰ سیاسی کیسز سے ہٹ کر عوام کا بھی سوچیں گے؟

 

سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان ، ہائی کورٹس کے تمام چیف جسٹس صاحبان ،اعلیٰ عدلیہ کے تمام جج حضرات جب ہائی پروفائل سیاسی کیسوں کا فیصلہ کر لیں، جب ایجنسیوں کی طرف سے عدالتی معاملات میں پہلے مداخلت کا ذریعہ بننے اور پھر اُس کو روکنے کے کسی فارمولے پر اتفاق رائے پیدا کر لیں۔ جب نواز شریف، عمران خان اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو اپنی ہی ناانصافیوں کے بعد انصاف دینے میں کامیاب ہو جائیں، جب اپنے ججوں کے کردار کو یکسر بھولتے ہوئے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید سمیت سیاسی اور عدالتی معاملات میں مداخلت کرنے والے جرنیلوں کے احتساب سے فارغ ہوجائیں، جب مارشل لا  کو بار بار قانونی قرار دیکر اب اُس کو روکنے کے قابل ہو جائیں تو پھر تھوڑی سی توجہ عوام کو جلد اور سستا انصاف دینے پر بھی دے دیں۔ اس کام میں اتنی واہ واہ تو نہیں ہو گی، ٹی وی ٹکرز بھی نہیں چلیں گے، لائیو ٹیلی کاسٹ بھی نہیں ہو گی لیکن یہ وہ بنیادی فریضہ ہے جو ہماری عدلیہ ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی مزید کہتے ہیں کہ ہم بغیر چوں و چرا تمام اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ہیرو تسلیم کرتے ہیں، مان لیتے ہیں کہ سب بڑے کمال کے جج ہیں لیکن مہربانی فرما کر عام آدمی کو انصاف دیں۔ تھوڑی سی توجہ ذرا اُن لاکھوں پاکستانیوں پر بھی مرکوز کر لیں جو ہر روز کورٹ کچہریوں میں انصاف کیلئے دھکے کھاتے ہیں، برسوں، بلکہ دہائیوں عام کیسوں کے فیصلے کا انتظار کرتے رہتے ہیں، یہاں تو کیس کے فیصلوں کے انتظار میں نسلوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انصار عباسی کے مطابق ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں کیس عدالتوں میں زیر التوا ہیں اور ان کیسوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ نہ یہاں جلد انصاف ملتا ہے نہ سستے انصاف کا کوئی تصور اب باقی بچا ہے۔ انصار عباسی کے بقول پیسہ ہے تو عدالت جائو ورنہ گھر زمین سب کچھ بیچ کر بھی انصاف نہیں ملتا۔ غریب اور عام آدمی کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔عدالتیں انصاف کی بجائے ناانصافی کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ اسی وجہ سے عدالت کا نام سن کر ڈر لگتا ہے کہ عدالت گئے تو پھر برسوں دہائیوں کیلئے پھنس جائینگے۔

انصار عباسی نظام انصاف بارے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے تمام جج حضرات سے سوال ہے کہ اُنہوں نے عام عدالتوں میں جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے کیا کیا؟ کتنی اصلاحات تجویز کیں؟ کتنے خط لکھے؟ گذشتہ برسوں میں چیف جسٹس حضرات نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں کتنی بار اس اہم ترین مسئلہ کے حل کیلئے فل کورٹ میٹنگز بلائیں؟ سپریم جوڈیشل کونسل نے انصاف کی جلد فراہمی میں ناکامی پر ججوں کے احتساب کے بارے میں کتنی بار سوچا اور کیا فیصلے کیے؟انصار عباسی کے مطابق جب موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنا عہدہ سنبھالا تو توقع تھی کہ چیف جسٹس ماضی کی تمام خرابیوں کے ہر ذمہ دار کو کٹہرے میں لا کھڑا کر یں گے، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ انصار عباسی کے مطابق پاکستان اور عوام کے مستقبل کیلئے چیف جسٹس کی اولین توجہ عدلیہ کی سمت درست کرنے اور اسے اس قابل بنا نے پر ہونی چاہئے کہ وہ لوگوں کو انصاف دے، عوام کا عدالتوں پر اعتماد بحال ہو، مقدمات برسوں دہائیوں تک چلنے کی بجائے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ اگر چیف جسٹس پاکستان کے عدالتی نظام میں ایسی اصلاحات لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ عدالتیں فوری اور سستا انصاف دینے لگیں تو یہ وہ کارنامہ ہو گا جو نہ صرف جسٹس فائز عیسیٰ کو امر کر دے گا بلکہ اس کا فائدہ پاکستان اور عوام کوبھی ہو گا۔ اصل توجہ اُس عدالتی نظام کی اصلاح پر ہونی چاہئے جو عوام کو انصاف دینے میں ناکام ہو چکا ہے، جس پر کسی کو کوئی اعتماد نہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں آخری نمبروں پر گنا جاتا ہے۔

Related Articles

Back to top button