دیسی چکن کھانے والا کپتان بمقابلہ سخت ترتن قید کاٹنے والے ورکرز

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ آج کل کے اکثر سیاسی رہنما جیل کا نام سنتے ہی رونے لگتے ہیں، اور معافی مانگ لیتے ہیں، لیکن تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کچھ سیاسی کارکنان ایسے بھی ہیں جنہوں نے سیاست کی لاج رکھی ہے اور ہمت سے جیل کاٹ رہے ہیں حالانکہ انہیں  نہ تو اپنے کپتان کی طرح جیل میں روزانہ دیسی مرغ کا سالن ملتا ہے اور نہ ہی مرضی سے ملاقاتوں کی سہولت حاصل ہے۔

اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ تحریک انصاف والے ڈینگیں تو بہت مارتے ہیں لیکن جب مشکل وقت آیا تو اسکے درجنوں لیڈرز پہلی ہی ہلے میں بے وفا ہو گئے۔ کسی سے تفتیش نہ سہی گئی، کوئی جیل سے معافی نامہ لکھ کر رہا ہوا اور کسی نے پس پردہ ڈیل کر کے سیاست سے ہی پردہ کر لیا۔ ایسے میں جو تین لاہوری وفا کے پتلے ثابت ہوئے ان تینوں کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور یہ سب اپنی محنت کے بل بوتے پر ہی آگے آئے تھے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد غلام نبی ملک کی بہو ہیں جو کہ تحریک پاکستان کے ورکر تھے، پیپلز پارٹی کے بھٹو دور میں صوبائی وزیر رہے، ملک صاحب دھڑے کے آدمی تھے، انہوں نے اپنی بہو کی تربیت بھی ایسے ہی کی۔ وہ پی ٹی آئی میں آئیں تو لاہور جیسے شہر میں، جو نون کا گڑھ تھا، شبانہ روز محنت سے اپنا سکہ جما لیا۔ 9 مئی 2023 کو وہ کور کمانڈر ہائوس کے باہر موجود تھیں مگر ان کی ریکارڈنگ میں سنا جا رہا ہے کہ وہ کہہ رہی ہیں کہ توڑ پھوڑ نہیں کرنی۔ مگر ایسے جنونی وقت میں ان کی کون سنتا۔ 9 مئی کا سانحہ ہو کر رہا اور وہ اپنے سسر کی روایت پر عمل کرتے ہوئے وفا کی سزا بھگت رہی ہیں۔

اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، 100 انڈیکس میں 515 پوائنٹس کا اضافہ

سینیٹر اعجاز چودھری عرف مگا کا نام میں نے پہلی بار تب سنا جب وہ انجینئرنگ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ موصوف اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے اور اپنی کومٹ منٹ ہی کی وجہ سے امیر جماعت میاں طفیل محمد کے داماد بنے، قاضی حسین احمد کی آنکھ کا تارا رہے، قاضی صاحب کو جب بھی فنڈنگ کی ضرورت ہوتی تو وہ اپنی گھڑی یا کوئی اور چیز نیلامی پر لگاتے اور اعجاز چودھری سب سے مہنگی بولی لگا کر اسے خرید لیتے۔ مگر جب اعجاز نے جماعت اسلامی کو اپنی سیاست کیلئے تنگ پایا تو تحریک انصاف میں شامل ہو گئے، پنجاب کے صدر منتخب ہو کے لاہور سے بنی گالا تک پیدل احتجاجی جلوس نکال کر ریکارڈ قائم کر دیا۔ باوجود پارٹی لیڈر شپ کے تحفظات کے ان کی قربانیوں کا وزن اس قدر زیادہ تھا کہ انہیں سینیٹر بنانا پڑا۔ 9 مئی کے واقعے کے بعد وہ بھی مسلسل جیل میں ہیں۔

لاہور کے تیسرے بے چارے ورکر میاں محمود الرشید ہیں، جن کا تعلق بھی اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا، وہ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر لاہور سے ممبر صوبائی اسمبلی بھی رہے۔ لیکن پھر وہ تحریک انصاف کے متحرک رکن کی حیثیت سے میدان میں اترے اور علامہ اقبال ٹائون کے حلقے سے مسلسل رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں صوبائی وزیر باتدبیر رہے۔ میاں محمود الرشید بھی نو مئی کے مقدمات بھگت رہے ہیں۔

سہیل وڑائج لکھتے ہیں کہ یہ تینوں لاہوری بے چارے سال سے زیادہ سزا بھگت چکے ہیں، نہ یہ حماد اظہر کی طرح بھاگے، اور نہ ہی مراد سعید کی طرح روپوش ہوئے، ایسے میں سوال یہ ہے کہ عدالت، معاشرہ، فوج اور ہم سب کیا ان کو ایسے ہی سزا دیتے رہیں گے یا کبھی انہیں رہائی بھی دی جائےگی….!

Back to top button