نام نہاد انقلابی کپتان اصل میں جنرل عاصم منیر سے کیا چاہتا ہے؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے تحریک انصاف والوں کا یہ تھیسس مسترد کر دیا ہے کہ اسوقت پاکستان میں انقلاب کی سی صورتحال پیدا ہو چکی ہے، اور ایک چنگاری سلگتے ہی غریب عوام کے ہاتھوں اشرافیہ بھی جل کر راکھ ہو جائے گی۔ ان کے بقول نا تو تحریک انصاف انقلابی ہے اور نہ ہی اس کے بانی عمران خان۔ بات سیدھی ہے‘ معاملہ صرف سنگ دل محبوب کو راضی کرنے کا ہے۔ عمران خان کی صرف ایک ڈیمانڈ ہے اور وہ یہ کہ جنرل عاصم منیر موجودہ حکومت کے سر سے ہاتھ اٹھا کر ان کے کندھے پر رکھ دیں۔ جس دن یہ ہو گیا اس روز انکا انقلاب کا نعرہ بھی دفن ہو جائے گا اور شیخ مجیب الرحمن بھی دوبارہ غدار بن جائے گا۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ہر پانچ برس بعد اپنی جماعت بدلنے والے وکیل رہنما بابر اعوان نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان انقلاب کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ یہ دعوی کرتے وقت انہوں نے انقلاب فرانس کے وقت غریب انقلابیوں کے ہاتھوں اشرافیہ کی درگت کی تفصیل بھی بیان کی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان میں بھی خونی انقلاب آنے والا ہے۔ جاوید چوہدری کہتے ہیں میں انقلاب والی بات سے تو اتفاق کرتا ہوں لیکن جب بات انقلابیوں کی آتی ہے تو مجھے حیرت ہونے لگتی ہے؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا تحریک انصاف کوئہ غریب پارٹی ہے؟ کیا آپ کو پارٹی کی قیادت میں کوئی غریب یا عام آدمی دکھائی دیتا ہے‘ بابر اعوان سے لے کر بیرسٹر گوہر خان تک ان میں کون غریب ہے اور کون عام ہے؟ دوسرا‘ اس ملک میں جس اشرافیہ کے خلاف انقلاب آنا چاہیے ان میں سے کون سا ایسا خاندان‘ طبقہ یا گروپ ہے جس کے نمایندے اس وقت پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہیں؟ کیا اس پارٹی میں وہ سابق بیوروکریٹس اور فوجی افسر شامل نہیں ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک انقلاب کے دہانے تک پہنچا‘ کیا؟ اس میں وہ جاگیردار‘ بزنس مین‘ صنعت کار‘ ٹھیکے دار‘ پراپرٹی ٹائیکونز‘ پیر اور سیاست دان شامل نہیں ہیں جن کی وجہ سے آج ملک سسک رہا ہے۔ تیسرا سوال‘ اگر آج کی حکمران جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار یا کٹھ پتلیاں ہیں تو کیا پی ٹی آئی کی پیدائش فوج کی کوکھ سے نہیں ہوئی تھی اور کیا یہ اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی نہیں تھی؟کیا یہ حقیقت نہیں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پارلیمنٹ بھی ایک ریٹائرڈ کرنل چلاتا تھا‘ اس کا نام کرنل لیاقت تھا اور وہ نہ صرف حکومتی ارکان کو کنٹرول کرتا تھا بلکہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ’’مینج‘‘ کرنا بھی اس کی ذمے داری ہوتی تھی۔

جاوید چوہدری سوال کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت میں کون سا شخص انقلابی ہے؟ کیا عمر ایوب انقلابی ہیں جن کے دادا ملک کے پہلے مارشل لاء ڈکٹیٹر تھے اور ان کی پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف پاکستان ٹوٹا بلکہ انھوں نے ملک میں الیکشن میں دھاندلی کی بنیاد بھی رکھی اور یہ دھاندلی بھی کس کے خلاف ہوئی تھی؟ یہ دھاندلی محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ہوئی تھی جو قائداعظم کی بہن تھیں اور پاکستان بنانے میں بھی ان کا بہت اہم رول تھا اور دادا حضور جاتے جاتے اقتدار ایک اور جنرل کے حوالے کر گئے تھے‘ عمر ایوب کے والد بھی مسلم لیگ ن میں رہے‘ سپیکر قومی اسمبلی بنے‘ وزیر خارجہ اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بنے‘ پھر وہ ق لیگ میں چلے گئے اور پھر ن لیگ میں واپس آ گئے‘ عمر ایوب خود بھی ق لیگ اور ن لیگ سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی میں آئے‘ انھوں نے ق لیگ اور ن لیگ دونوں کی طرف سے قومی اسمبلی میں بجٹ بھی پیش کیے لیکن یہ اب انقلابی ہیں اور اس انقلاب کی قیادت بھی کرنا چاہتے ہیں جس نے انقلاب فرانس کا ریکارڈ توڑنا ہے۔

عالمی بینک نے پاکستان کےلیے ایک ارب ڈالرز فنڈنگ کی منظوری دے دی

آپ تھوڑا سا آگے بڑھیں بابر اعوان بھی ن لیگ سے پیپلز پارٹی میں آئے تھے‘یہ بھٹو اور زرداری فیملی کی وکالت کرتے رہے‘ پیپلز پارٹی کے وزیر قانون رہے‘ انھوں نے عدالتوں کے درجنوں فیصلوں کے باوجود آصف علی زرداری کے سوئس اکاؤنٹس سے رقم پاکستان نہیں آنے دی لہٰذا آج اگر زرداری صاحب ’’چور ‘‘ہیں تو اس کی ذمے داری بابراعوان پر بھی آتی ہے‘ یہ اس کے بعد پی ٹی آئی میں آ گئے اور یہاں ظل شاہ جیسے ورکرز جانیں دیتے رہ گئے اور ہمارے قائد انقلاب گھر میں زندگی کے سارے سکھ انجوائے کرتے رہے۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ گوہر خان بیرسٹر اور خاندانی امیر ہیں‘ مہنگے وکیل ہیں‘ دو دو کروڑ روپے فیس لیتے ہیں‘ 2008 میں بونیر سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا‘ 2022 میں پارٹی میں شامل ہوئے اور انقلابی جماعت کے چیئرمین بن گئے‘ یہ آج بھی 48 سینٹی گریڈ کی گرمی میں سوٹ پہنتے ہیں‘ موصعف نے آج تک جیل نہیں دیکھی، کیا یہ اب انقلاب کی قیادت کریں گے۔

اسی طرح علی امین گنڈا پور کے والد فوج میں کرنل تھے‘ خاندانی رئیس ہیں‘ ڈی آئی خان میں کتنی زمین‘ جائیداد اور سرمائے کے مالک ہیں آپ وہاں کے لوگوں سے پوچھ لیں‘ کرپشن کے کتنے مقدمات ہیں اور کتنے لوگ کیا کیا کہانیاں سناتے ہیں آپ یہ بھی جا کر سن لیں لیکن اب گنڈا پور بھی قائد انقلاب ہیں۔ جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ شیخ رشید کا پارٹی کے ساتھ اب کوئی تعلق نہیں مگر یہ بھی قائد انقلاب ہیں اور روز عمران کو دعوت دیتے ہیں ’’قدم بڑھاؤ عمران ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ ان کے ماضی سے بھی کون واقف نہیں؟ یہ میاں نواز شریف کی تقریر سے پہلے تقریر کیا کرتے تھے اور درودیوار ہلا دیتے تھے پھر یہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مل گئے اور یہ واحد سیاست دان تھے جو مشرف کو سید پرویز مشرف کہتے تھے‘ شیخ صاحب نے ق لیگ کے ساتھ وزارتیں انجوائے کیں‘ پیپلز پارٹی کے دور میں آصف زرداری کے ساتھ لنچ کیا‘ ان کی مدد سے ضمنی الیکشن جیتا اور آخر میں عمران خان کے ساتھ شامل ہو گئے‘ یہ جنرل فیض حمید سے کیا کیا مطالبہ کیا کرتے تھے اور انھیں کس عاجزی اور انکساری سے ملتے تھے، یہ میں آپ کو پھر کسی وقت سناؤں گا، لیکن آج یہ بھی قائد انقلاب ہیں۔

اسی طرح لطیف کھوسہ کی پوری زندگی پیپلز پارٹی میں گزری‘ یہ وزیر بھی رہے‘ مشیر بھی‘ اٹارنی جنرل بھی اور گورنر پنجاب بھی‘ یہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے وکیل بھی تھے لیکن یہ بھی اب پیپلزپارٹی کے خلاف قائد انقلاب ہیں‘ یہ فہرست صرف یہاں تک محدود نہیں‘ آپ اس میں شبلی فراز‘ سلمان اکرم راجہ‘ شاہ محمود قریشی‘ اسلم اقبال‘ فواد چوہدری اور ان جیسے درجنوں لیڈروں کو بھی شامل کر لیں‘ کیا ان کا تعلق اس اشرافیہ کے ساتھ نہیں جس کے خلاف عمران خان انقلاب لانا چاہتے ہیں اور کیا یہ اور ان کے بزرگ اس سسٹم کا حصہ نہیں تھے جس کی وجہ سے آج ملک کا یہ حال ہے‘ ان میں سے کون ہے جس کے خلاف انقلاب نہیں آنا چاہیے؟ آپ ان میں کسی شخص کا پروفائل اٹھالیں‘ یہ آپ کو اشرافیہ کا نمایندہ بھی ملے گا اور اس سسٹم کا بینی فشری بھی لیکن آپ اس کے ساتھ ساتھ بڑھکیں بھی دیکھ لیں۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں آپ کسی دن عمران خان کا اپنا پروفائل بھی دیکھ لیں‘ ان کے والد اکرام اللہ خان نیازی کون تھے؟ وہ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے ملازم تھے اور ان پر دوران سروس کرپشن کے کون کون سے الزامات نہیں لگے‘خان صاحب پوری زندگی زمان پارک میں رہے جسے لاہور کی ایلیٹ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا‘ آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی اور رائل فیملی کے ساتھ وقت گزارا‘ ان کی پہلی بیگم جمائما برطانیہ کے ارب پتی جیمزگولڈ اسمتھ کی بیٹی تھی اور یہ آخر میں 300 کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔ کیا یہ اشرافیہ نہیں اور کیا یہ بڑے بڑے محلوں سے نکل کر چھوٹے گھروں میں شفٹ ہونگے ہیں۔ سوال یہ بھی یے کہ کیا عمران خان کے دور میں امیر‘ امیر تر نہیں ہوا اور کیا غریب مزید غربت کی چکی میں نہیں پسا؟ چلیے اس کو بھی چھوڑ دیجیے‘ کے پی میں آپ کی حکومت ہے۔ آپ وہاں انقلاب کیوں نہیں لاتے؟ آپ کا انقلاب صرف اسلام آباد اور پنجاب میں کیوں آنا چاہتا ہے؟

Back to top button