عمران خان انڈین ایجنڈا آگے بڑھا کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

سقوط ڈھاکہ کے 50 برس بعد پاک فوج کو سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار ٹھہرانا اور اس کی تذلیل کرنا دراصل عمران خان کا نہیں بلکہ بھارت کا ایجنڈا ہے، اور آج بانی پی ٹی آئی بڑی بے شرمی سے اس پر عمل کرتے ہوئے ملکی سلامتی سے کھیلنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا ایسی گندی سوچ رکھنے والا شخص محب وطن کہلائے جانے کا مستحق ہے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار مرزا اشتیاق بیگ اپنی تازہ تحریر میں یہ موقف اختیار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے سوشل میڈیا اکائونٹ سے پوسٹ کی گئی ویڈیو اور ٹوئٹ کا معاملہ آج کل موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ’’غدار کون؟‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ شیئر کی گئی ویڈیو میں عمران خان نے عوام کو سقوط ڈھاکہ سے متعلق حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’عوام یہ فیصلہ کرے کہ سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار اور پاکستان کا غدار کون تھا۔‘‘ ویڈیو میں شیخ مجیب الرحمن کو ’’ہیرو‘‘ اور اُس وقت کے فوجی سربراہ کو ولن اور غدار کے طور پر پیش کیا گیا۔ متنازع ٹوئٹ اور ویڈیو پر عوام، حکومت اور افواج پاکستان کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ عوام کی جانب سے شدید تنقید کے باعث یہ امید کی جارہی تھی کہ عمران خان اس ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کردیں گے، مگر افسوس کہ انہوں نے ایسا کرنا گوارا نہ کیا بلکہ اڈیالہ جیل میں ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کے سامنے اپنی ٹوئٹ کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے عوام میں آگہی پیدا کرنا اور اس واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کرنا تھا۔

عمران خان نے جتنے جوتے چاٹے ہیں شاید ہی کسی نے چاٹے ہوں، خواجہ آصف

 

مرزا اشتیاق بیگ کہتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ ہر پاکستانی کیلئے ایک ایسا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر سکے۔ اس حوالے سے کچھ تلخ حقائق شیئر کرنا چاہوں گا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان بھارت میں قید 90 ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں کی تذلیل کیلئے ایک خفیہ منصوبے پر اتفاق ہوا جس کے تحت بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھارت نے 1972 میں بنگلہ دیش کو تسلیم کرانے کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی جسے سلامتی کونسل کے بیشتر ارکان کی حمایت حاصل تھی اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ یہ قرارداد منظور ہوجاتی تو بنگلہ دیش ایک مملکت کے طور پر وجود میں آتا اور اقوام متحدہ کا ممبر بن جاتا جس کے بعد بھارت ان 90ہزار پاکستانی فوجیوں کو بنگلہ دیش کے حوالے کردیتا اور بنگلہ دیش ایک خود مختار ملک ہونے کے ناطے ان فوجیوں پر قتل، عصمت دری اور جنگی جرائم کا مقدمہ چلاکر انہیں سرعام پھانسی اور دیگر کڑی سزائیں دیتا۔ ایسا کرکے مجیب الرحمن اپنے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ بنگالیوں کے قتل عام میں مبینہ ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا جبکہ بھارت ایسا کرکے پاک فوج کی عالمی سطح پر تذلیل کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان کیلئے یہ انتہائی مشکل صورتحال تھی۔ ایسے میں حکومت پاکستان نے چین کو بھارت کے مذموم عزائم سے آگاہ کیا اور مدد چاہی۔ چین کچھ ماہ قبل ہی اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا رکن بنا تھا اور اسکی رکنیت کا یہ پہلا سال تھا۔ چین نے پاکستان سے وعدہ کیا کہ ایسے کڑے وقت میں وہ پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور بھارت کے مذموم عزائم کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ اس طرح جب بنگلہ دیش کو تسلیم کرانے کی قرارداد سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تو چین وہ واحد ملک تھا جس نے قرارداد کو ویٹو کرکے پاکستان اور پاک فوج کو بھارت کی گھنائونی سازش سے بچالیا۔ بعد ازاں جب بھارت کو یقین ہوگیا کہ چین کے ہوتے ہوئے بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تو بھارت کیلئے 90 ہزار فوجی ایک بوجھ بن گئے اور وہ ان کی واپسی کیلئے ذوالفقار علی بھٹو سے شملہ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا جسکے نتیجے میں ان فوجیوں کی باعزت طریقے سے وطن واپسی ممکن ہوئی اور 1974میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔

 مرزا اشتیاق بیگ کہتے ہیں کہ پاکستان آج ایک مرتبہ پھر اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے، دشمن کی نظریں ہم پر مرکوز ہیں اور وہ اپنے مذموم عزائم ،جو 1972 میں حاصل نہ کرسکا تھا، کی تکمیل کیلئے دوبارہ جال بُن رہا ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے سیاستدان ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس میں ملکی سلامتی سے کھیل رہے ہیں۔

Back to top button