شرپسند کپتان کو کم از کم 5برس تک جیل میں رکھنے کامنصوبہ

سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ حکومت اور طاقتور حلقوں کی خواہش ہے کہ عمران خان پانچ سال جیل میں ہی رہیں تاکہ حکومت کو پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے تحریک انصاف کی طرف سے کسی بڑے سیاسی احتجاج یا رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حکمرانوں کو یہ بات معلوم ہے کہ عمران خان اگر جیل میں رہتے ہیں تو تحریک انصاف کی موجودہ قیادت سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی بانی تحریک انصاف کی غیر موجودگی میں پی ٹی آئی کوئی بڑا احتجاج کر سکتی ہے۔عمران خان اگر جیل سے آزاد ہوتے ہیں اور عوام کو احتجاج کیلئے باہر نکالتے ہیں تو اُس صورت میں حکومت کیلئے بڑی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے حکومت کی یہی خواہش ہو گی کہ عمران خان جب تک ممکن ہو جیل میں ہی رہیں۔شہباز شریف حکومت کی کوشش ہو گی کہ بغیر کسی سیاسی خطرے کے اُس کی توجہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے اور مہنگائی میں کمی لانے پر مرکوز رہے کیونکہ اسکے علاوہ حکومت،جسے اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے ،کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

شہباز حکومت ملک کو معاشی بحران سے نکالنے، اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے عمران خان کو اگلے 5 سال تک ہر صورت جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کی خواہشمند ہے لیگی قیادت سمجھتی ہے کہ اگر عمران خان جیل سے باہر آتے ہیں تو پھر سے دھرنے اور لڑائیاں ہوں گی جس کا پاکستان،موجودہ حالات میں متحمل نہیں ہو سکتا۔ دوسری جانب جہاں پی ٹی آئی نے ایک بار پھر محمود خان اچکزئی کے گلے میں مذاکرات کا ڈھول ڈال کر پیٹنا شروع کر دیا ہے وہیں حکمران اتحاد نے پی ٹی آئی کی طرف سے 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگنے تک مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے دوسری جانب فوج تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو پہلے ہی مسترد کر چکی ہے اور9مئی کے حوالے سے نہ صرف معافی بلکہ ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

عزم استحکام آپریشن کیا ہے؟ حکومت نے وضاحت کر دی

 

سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ عمران خان نے کافی لیت و لعل کے بعد محمود اچکزئی کو مذاکرات کی اجازت دی ہے۔عمران خان نے محمود خان اچکزئی کو سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی ذمہ داری نہیں دی بلکہ یہ خود محمود اچکزئی کی تجویز ہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ عمران خان اور محمود خان اچکزئی کی سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی بات اتمام حجت ہے، دونوں جانتے ہیں تحریک تحفظ آئین کے نام پر عمران خان کو رہا نہیں کرواسکتے، اپوزیشن تحریک تحفظ آئین میں ایک نکتہ عدلیہ کے ساتھ حکومت کی لڑائی بھی ہے، پیپلز پارٹی بھی بجٹ کی منظور ی کیلئے حکومت کی عدلیہ کے ساتھ لڑائی ختم کرنے کی شرط لگاسکتی ہے۔حامد میر نے کہا کہ حکومت نے اپنے رویے سے عدلیہ کو آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی طرف دھکیل دیا ہے، تاریخ دیکھیں تو عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ لڑائی کرنے والی حکومت بالآخر نقصان میں رہتی ہے، عدلیہ اور حکومت کی لڑائی میں ن لیگ کو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔حامد میر کا مزید کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو نواز شریف نہیں مناسکے تو شہباز شریف کیسے مناسکتے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن موجودہ حکومت کی باتوں میں نہیں آئیں گے،

تاہم سینئر صحافی و تجزیہ کار محمد مالک نے کہا محمود خان اچکزئی کو لگتا ہے مذاکرات ان کا آئیڈیا ہے مگر یہ ان کا آئیڈیا نہیں ہے، عمران خان زبردست چال چلتے ہوئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے بات چیت کیلئے محمود اچکزئی کو آگے لائے ہیں کیونکہ ان کے دونوں جماعتوں کی قیادت سے اچھے تعلقات ہیں۔ان کا کہنا تھا محمود اچکزئی کامیاب ہوئے تو عمران خان کی کامیابی سمجھی جائے گی اگر ناکام ہوئے تو ان کی شخصی ناکامی کہی جائے گی، عمران خان نے سپریم کورٹ کے کہنے پر مذاکرات کیلئے یہ قدم اٹھایا ہے، اب مذاکرات ناکام ہوں یاکامیاب دونوں صورتوں میں عمران خان کو فائدہ پہنچے گا۔محمد مالک کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ بجٹ برا ہے مگر اتنا برا نہیں کہ اس کے بعد سڑکوں پر آگ لگ جائے، پیپلز پارٹی بجٹ پر ووٹ نہیں دیتی تو حکومت گرجائے گی، تیسرا اسٹیک ہولڈر پیپلز پارٹی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

Back to top button