عمران خان جیل میں کس اعلی ترین افسر کو گالیاں بک رہے ہیں؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے انکشاف کیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان اپنے اکثر ملاقاتیوں سے گفتگو میں ایک طاقت ور ترین ادارے کے اعلیٰ ترین عہدے دار کے بارے مسلسل مغلظات بکتے ہیں، اور دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ خان صاحب کی یہ بیہودہ بات چیت ریکارڈ کی جاتی ہے، اور اس کا ٹرانس کرپٹ متعلقہ اداروں اور افسران تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس گفتگو میں عمران خان اپنی رہائی کے بعد سب سے پہلے جن اداروں اور افسران سے نبٹیں گے ان کا ذکرِ خیر تمام کوسنوں سمیت موجود ہوتا ہے۔ یعنی عمران خان اپنی متوقع رہائی کے بعد پاکستان میں سیاسی’ استحکام‘ کا ایک واضح نقشہ رکھتے ہیں، اور نو مئی کی واردات ڈالنے والے ان کے جنونی کارکنانِ بھی اس نقشے سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ حماد غزنوی کے مطابق عمران خان اس حد تک اس لیے گر رہے ہیں کہ انہیں صحیح معنوں میں جیل کی سختیاں نہیں جھیلنی پڑی ورنہ اب تک موصوف دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر اسی اعلی افسر کے پیر پکڑنے کے لیے منتیں کر رہے ہوتے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حماد لکھتے ہیں کہ عمران خان کو جیل میں لگ بھگ ایک سال ہو چلا ہے، ان کی رہائی کیلئے سڑکوں پر کوئی دبائو، کوئی ہائو ہو نہیں ہے، لیکن زیرِ سطح ان کے حامیوں میں ایک اضطراب ہے جو اس وقت تک موجود رہے گا جب تک ان کے ’مرشد‘ مہر و ماہ کو روزنِ زنداں سے دیدار کرواتے رہیں گے۔ سیاسی مبصر کہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام کیلئے از حد ضروری ہے کہ سیاسی نظام کو ’نارمل‘ کیا جائے، اور اس کی اولین شرط یہ ہے کہ ابو زنداں کو رہا کیا جائے اور سیاست میں بلا کسی رکاوٹ شرکت کا موقع دیا جائے، ورنہ یہ ہنڈیا اندر ہی اندر کھولتی رہے گی اور کبھی نہ کبھی موقع پا کر چھلک جائے گی۔ یہ سچ ہے کہ پی ٹی آئی کے بہت سے دوست اتنے غصے میں ہیں کہ ریاست اور سیاست میں امتیاز نہیں کر پا رہے، پاکستانی ٹیم کے کسی کھیل میں ہارنے پر بغلیں بجاتے ہیں، اور معیشت کے حوالے سے اگر کوئی بھولی بھٹکی مثبت خبر آ ہی جائے تو ان کی پیشانیاں شکن آلود ہو جاتی ہیں۔اب آپ ہی بتائیے کہ ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے کی اس تخریبی ذہنی حالت کے ساتھ ملک میں سیاسی استحکام کی توقع کیوں کر باندھی جا سکتی ہے۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ دوسری طرف، پاکستانی سیاست کا ہر طالبِ علم اور عمران خان کی ذہنی ساخت سے آگاہ ہر شخص قطعیت سے یہ بات کہہ سکتا ہے کہ ابو زنداں رہا ہو کر ملک میں سیاسی افراتفری برپا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی عمران کے جیل میں ہوتے ہوئے سیاسی استحکام نہیں آ سکتا، اور ان کے رہا ہونے سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ معاشی استحکام کی خشتِ اول سیاسی استواری ہوا کرتی ہے، اور اس وقت ہمارا مسئلہء اولین معاشی تزلزل ہے، یعنی بہتر معاشی مستقبل کا راستہ سیاسی انتشار سے نہیں نکل سکتا، بالکل نہیں نکل سکتا۔ تو پھر ان حالات میں کیا ہونا چاہیے؟ کیا ابو زنداں کو اس شرط پر رہا کیا جا سکتا ہے کہ وہ ملکی معیشت کو سنبھلنے کیلئے دو تین سال مرحمت فرمائیں گے؟ کوئی دوسرا تو کیا، اس ضمن میں عمران خان خود بھی اپنی ضمانت نہیں دے سکتے۔ جیل سیاست دانوں کا مکتب ہوتا ہے، عمران خان نے جیل سے کیا سیکھا ہو گا؟

سپریم کورٹ کے تین نئے ججز نے حلف اٹھالیا

 

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ واقفانِ حال کا اصرار ہے کہ جس قسم کی آسودہ اور آسان جیل خان صاحب کاٹ رہے ہیں، اس سے کوئی بھی سیاست دان یا مجرم کچھ نہیں سیکھ سکتا، انکے مطابق عمران خان کو دنیا جہاں کی ہر سہولت میسر ہے جس کے تصویری ثبوت میڈیا پر بھی جاری ہو چکے ہیں۔ دیسی بکرا ہو یا دیسی مرغی، روم کولر ہو یا ریفریجریٹر، خان صاحب کے پاس اڈیالہ جیل میں ہر اسائش موجود ہے لہذا جیل ابو اپنی اصلاح پر آمادہ نہیں کر پائی۔ پھر خان صاحب کو جیل میں وہ تنہائی بھی میسر نہیں جس میں بندہ خود احتسابی کرتا ہے، اپنے اندر جھانکتا ہے، اپنی بند گرہیں کھولتا ہے، اپنی غلطیوں کو گنتا ہے اور پھر انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

چنانچہ اگر اڈیالہ جیل میں دنیا کی تمام آسائشوں سے لطف اٹھانے والے عمران خان صاحب اپنے ملاقاتیوں سے گفتگو میں طاقتور ترین اداروں اور اعلی ترین افسران کے بارے میں بیہودہ گفتگو کرتے ہیں تو اس کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں بلکہ انہی اداروں پر عائد ہوتی ہے جنہیں صرف ان سیاست دانوں کا کڑا احتساب کرنا آتا ہے جو ان کی تخلیق نہیں ہوتے۔

Back to top button